ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
لئے اختیار کیا ہے جس مرض کا اس میں بیان ہے ۔ آج کل اس میں بہت ابتلا ہے اور امراض میں سے وہی مرض متنبہ کرنے کے لئے لیا جاتا ہے جس میں ابتلا ہو ۔ معصیت بھی مرض ہے اور مرض سے یہا مراد معصیت ہے گو لوگ اس کو مرض نہ سمجھیں کہ تعجب ہو گا کہ اس کو مرض کیوں کہا گیا لیکن بعد میں بیان حقیقت مرض کے اس کی وجہ سمجھ میں آجوے گی ۔ مرض کی حقیقت ہے اعتدال سے مزاج کا خارج ہو جانا اور معصیت میں بھی قلب کا مزاج اعتدال سے خارج ہو جاتا ہے ۔ معصیت 1؎ کا مرض جسمانی سے اشد ہونا اور اس کا بیان کہ موت تمام تکلیفوں سے چھڑا دیتی ہے بلکہ یہ خروج 2؎ عن الاعتدال جو قلب کے متعلق ہے زیادہ مضر ہے ۔ اس لئے کہ بدنی مرض کا انجام بہت سے بہت یہ ہے کہ مر جاوے گا اور مرنے سے بعض اوقات ہوتا ہے کہ بہت سے جگھڑوں سے چھوٹ جاتا ہے کیونکہ جس قدر آلام 3؎ ہیں وہ اس بدن اور روح ہی کے تعلق کی وجہ 4؎ سے ہیں ۔ دیکھئے مرض حذر یعنی سن ہو جانے میں بدن کو اگر کاٹ ڈالیں تو کچھ بھی تکلیف محسوس نہیں ہوتی اور مفلوج کے فالج زدہ حصے میں اگر سوئیاں بھی چبھوئیں تو کچھ بھی اثر نہیں ہوتا کیونکہ روح کا تعلق بدن سے ویسا نہیں رہا باوجود یہ کہ اس حالت میں روح سے تعلق رہتا ہے گو وہ ضعیف سہی اس تعلق ہی کا اثر یہ ہے کہ وہ عضو گلتا سڑتا نہیں جیسے مردوں کا بدن گل جاتا ہے اور جب کہ بالکل ہی روحی مفارقت ہو جاوے اور یہ تعلق ضعیف بھی نہ رہے گا تو ظاہر ہے کہ بطریق اولی تکلیف نہ ہو گی ۔ یعنی جو مفہوم تکلیف کا ہمارے نزدیک ہے اور جو معنے متبادرالم 5؎ کے ہیں وہ نہ ہو گی ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ گناہو کے مرض کا جسم کے مرض سے سخت ہونا ۔ 2؎ دل و روح کے مزاج کا درمیانی روش سے خارج ہونا ۔ 3؎ دنیا کی تکلیفیں 4؎ ایسے تعلق سے جو زندگی میں ہوتا ہے اور بعد میں نہیں رہتا ۔ 5؎ ذہن میں آنے والے یعنی جیسے عام چوٹ لگنے یا کٹنے سے ہوتی ہے اور قبر کے عذابات تو معنوی و لطیف تعلق سے جو نظر نہیں آسکتا ہوتے ہیں اور سخت تکلیف والے