ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
چاہیے ۔ ممکن ہے کہ وہ مندر بنانے لگے تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے مسجد میں دیا تھا تم مندر میں دو ، سو ایسی جگہ چندہ لینا بھی جائز نہیں اور اگر ان باتوں کا اندیشہ نہ ہو تو لے لیا جائے کوئی حرج نہیں اور یہ قرائن سے معلوم ہو سکتا ہے ۔ عرض کیا گیا اس کا تو احتمال ہے کہ شاید ایسا ہو کہ وہ اپنے مذہبی چندہ میں شریک کریں ، فرمایا تو ایسی صورت میں لینا جائز نہیں ۔ حرام مال مسجد کی تعمیر میں لگانا ( ملفوظ 128 ) احقر جامع نے دریافت کیا کہ رنڈی کی آمدنی جو بالیقین حرام ہے اور اس کا صرف کرنا جائز نہیں ہے اگر وہ اس آمدنی سے کسی مسکین فقیر و غیرہ پر صدقہ یا خیرات کر دے اور پھر وہ مسکین مالک ہونے کے بعد کسی مسجد یا مدرسہ میں دے دے تو جائز ہے یا نہیں ؟ فرمایا نہیں اور یہ قاعدہ جو مشہور ہے کہ شرعا تبدل ملک سے تبدل عین ہو جاتا ہے یہ مطلق و عام نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شے ایسی ہے کہ حلال تو ہے مگر کسی عارض کے سبب ایک شخص کو دی جائے جس کے لیے جائز ہے اور پھر وہ شخص اس دوسرے کو دے دے جس کے لیے اس عارض سے حرام تھا ، مثلا زکوۃ ہاشمی اور غنی کو حرام ہے فقیر مسکین کو جائز ہے ۔ اب اگر زکوۃ کسی فقیر مسکین غیر ہاشمی کو دیدی جائے اور وہ مالک ہو کر ہاشمی یا غنی کو دے دے تو جائز ہے ۔ حدیث بریرہ میں آیا ہے : لک صدقۃ و لنا ھدیۃ اور جو شے اپنی ذات میں حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے اس میں تبدل ملک کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ کتنی ہی ملکیں بدلیں وہ حرام کی حرام ہی ہے جیسے چوری کا مال غصب کا مال زنا کی اجرت البتہ اس صورت میں فقہاء نے ایک حیلہ لکھا ہے وہ یہ کہ رنڈی کسی حلال مال سے قرض لے کر مسجد میں دے ، یہ جائز ہے اس لیے کہ قرض لینا جائز ہے اور اس کو پھر جہاں سے چاہے ادا کر دے اس صورت میں مسجد وغیرہ میں لگا سکتے ہیں مگر چونکہ اس رقم سے قرض ادا کرنا ناجائز ہے اس لیے کسی مہاجن سے قرض لے کر دے دے کسی مسلمان سے قرض لے کر نہ دینا چاہیے تا کہ وہ مسلمان حرام سے محفوظ رہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے اور ایسا بھی جب کرے جب کوئی مجبوری ہو ورنہ بچنا ہی مناسب ہے ۔ مولوی بیچارے ان ہی باتوں سے عوام میں بدنام ہو جاتے ہیں کہ ہیر پھیر خوب جانتے ہیں حلانکہ ان ہی