ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
ما یفعل اللہ بعذابکم فرماتے ہیں ہم کو تمہارے عذاب کرنے میں کیا نفع ہم تو تم پر رحمت ہی کرنا چاہتے ہیں مگر تم نافرمانی کر کے خود ہی عذاب مول لیتے ہو ۔ اسی کو فرماتے ہیں : من نکردم خلق تاسودے کنم بلکہ تابر بندگاں جودے کنم پھر فرمایا کہ حالتیں ہر قسم کی سب کو پیش آتی ہیں مگر ضرورت اس میں شیخ کامل کی ہے ۔ اس راہ میں تنہا قدم رکھنا نہایت خطرناک ہے جیسے بدون طبیب حاذق کے امراض جسمانی میں جان کی ہلاکت کا اندیشہ ہے ایسے ہی بدون طبیب کامل روحانی کے اس راہ میں امراض باطنی سے ایمان کی ہلاکت کا اندیشہ ہے ۔ اسی کو فرماتے ہیں : یار باید راہ را تنہا مرد بے قلاؤز اندریں صحرا مرد ہر کہ تنہا نادر ایں رہ را برید ہم بعون ہمت مرداں رسید کار پاکاں را قیاس از خود مگیر ( ملفوظ 167 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حالت منکر پر با اختیار اصرار کرنا سبب ہلاکت ہے اور اگر غیر اختیاری حالت ہو تو اس میں وہ معذور ہو گا مگر دوسروں کو اس فعل سے استدلال نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر ایسا کوئی کرے گا تو اس کا یہ فعل با اختیار خود ہو گا اس لیے پہلے شخص کے لیے مضر نہیں مگر دوسرے شخص کے لیے مضر ہے جیسے آج کل یہ مرض عام ہو گیا ہے کہ صاحب حال لوگوں کے افعال و اقوال کو حجت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور خود بھی با اختیار ان چیزوں کے عامل بنتے ہیں ۔ ایسی صورت میں ایک ہی چیز ایک کے لیے مفید ہوتی ہے اور ایک کے لیے مضر ۔ مثال سے سمجھ لیجئے ۔ ایک شخص تندرست ہے اس کے لیے دودھ گھی مفید ہے اور ایک شخص بیمار ہے اس کو بخار آتا ہے اس کے لیے یہی چیزیں مضر ہوں گی اسی کو فرماتے ہیں : کارپاکاں را قیاس از خود مگیر گرچہ ماندور نوشتن شیر و شیر اور فرماتے ہیں : گفت فرعونے انا الحق گشت پست گفت منصورے انا الحق گشت مست رحمۃ اللہ ایں انار اور وفا لعنۃ اللہ آں انار اور قفا