ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
مواخذہ ہوتا ہے اور جو فکر سے غلطی ہو وہ ناگوار نہیں ہوتی اس پر مواخذہ بھی نہیں کیا جاتا ۔ اب ایک کام کی بات عرض کرتا ہوں کہ نرے قواعد پورے طور پر منضبط نہیں ہو سکتے ، بڑی بات انس و محبت ہے یعنی سب سے اول شرط اس طریق میں یہ ہے کہ باہم موانست ہو جب موانست ہوتی ہے تو ہر ضروری بات سمجھ میں آ جاتی ہے ۔ مسلمانوں کی صاف گوئی ( ملفوظ 65 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ آپس میں تعلقات صاف ہوں ، کسی بات میں الجھن نہ ہو نہ ان کو کسی سے سےتکلیف پہنچے نہ اوروں کو ان سے تکلیف ہو ، اگر ملنے کو جی چاہا مل لے نہ جی چاہا نہ ملے ، صاف کہہ دیا کہ فرصت نہیں ، مسلمان کی تو یہ خوبی ہے کہ ان کی دنیا بھی دین کے رنگ میں ہو ۔ عین عتاب کے وقت دوسروں کو اپنے سے افضل سمجھنا ( ملفوظ 66 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں تو کسی سے عین باز پرس کے وقت بھی الحمد للہ اس کا استحضار رکھتا ہوں کہ یہ شخص مجھ سے لاکھوں درجہ افضل ہے اور یہ استحضار کوئی کمال کی بات نہیں اس لیے کہ موٹی بات ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ عنداللہ اس کا کیا درجہ ہے مگر اصلاح کی ضرورت باز پرس پر مجبور کرتی ہے اور بعض اوقات جس بات پر مواخذہ کرتا ہوں وہ بات فی نفسہ اس درجہ کی نہیں ہوتی جس درجہ کا اس پر احتساب ہوتا ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میں اس کی منشاء کو دیکھتا ہوں اور بعض جرم منشاء کے اعتبار سے سخت ہوتا ہے اسی لیے ہر جرم میں یہ خیال کرنا چاہیے کہ گو یہ صورت صغیرہ ہے مگر ممکن ہے کہ منشاء کے اعتبار سے یہ کبائر سے بھی بڑھ کر ہو اور اس لیے کہیں اس پر مواخذہ بڑا نہ ہو ۔ گویہ اس کو ہلکا سمجھے ہوئے ہے ۔ اسی سلسلہ میں یہ بھی فرمایا کہ میں سچ عرض کرتا ہوں کہ کئی مرتبہ خیال ہوا کہ اس اصلاح کے کام کو چھوڑ دوں اور یہ چھوڑ دینا آسان ہے لیکن جب تک اس کو چھوڑا نہ جائے اس وقت تک اصلاح کا جو طریق ہے اس کے خلاف کرنے کو جی نہیں چاہتا اور مفید بھی نہیں ہوتا ۔ یہ تجربہ ہے کہ اگر نرمی سے بٹھلا کر سمجھا دیا جائے اس کا قبح ہونا اس کا معلوم نہیں ہوتا لیکن سیاست ہی کا طریق اختیار کرنا پڑتا ہے ۔