ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
یہ سادگی علو اور عظمت کی دلیل ہے ۔ میں جب کسی کو بنا ٹھنا دیکھتا ہوں تو سمجھ جاتا ہوں کہ نہایت پست خیال شخص ہے اگر بلند ہمت ہوتا تو اس کی اس کو فرصت ہی نہ ملتی جو شخص علوم عالیہ میں مشغول ہوتا ہے اس کا ذہن ہی ان چیزوں تک نہیں پہنچتا اور اہل دین جو مقتداء کہلاتے ہیں ان کو بننے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب فرمایا کرتے تھے : ( ایں ہمہ زینت زناں باشد ) اور دوسرے مصرعہ کی جگہ الی آخرہ فرما دیتے ہیں یہ بھی ایک مزاج ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ہرقل اپنی جگہ تھرا رہا ہے اور کسری اپنی جگہ ۔ ہرقل کا بھیجا ہوا سفیر مدینہ آتا ہے اور اہل مدینہ سے دریافت کرتا ہے : گفت کو قصر خلیفہ اے حشم تامن اسپ و رخت را آنجا کشم قوم جواب دیتی ہے : قوم گفتندش کہ اور اقصر نیست مرعمر را قصر جان روشنے است حضرت ان کی شان اور شوکت بدون بنے ٹھنے ہی ہوتی ہے ۔ اسی کو فرماتے ہیں : ہیبت حق است ایں از خلق نیست ہیبت ایں مرد صاحب دلق نیست اصلاح میں رعایت کرنا نقصان دہ ہے ( ملفوظ 296 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض لوگوں نے تو ملانوں کو بھیڑ سمجھ رکھا ہے اور بعض نے بھیڑیا پاس بھی نہیں آتے مگر ہماری جوتی سے نہیں آتے ہم اپنی طرف سے خدمت کو تیار ہیں اگر ہم پسند آئیں خدمت لو ورنہ جاؤ بلانے کون جانتا ہے ۔ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ انبیاء کرام پر تو تبلیغ فرض تھی اس لیے وہ کلفت زیادہ برداشت فرماتے تھے اور اب جبکہ حق سب کو پہنچ گیا ، فرض نہیں الا نادرا اسی سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کا تحمل انبیاء علیہم السلام کا ضبط انبیاء علیہم السلام کا صبر کون کر سکتا ہے اس لیے خود کسی کو لپٹنے کی ضرورت نہیں البتہ اگر کوئی خود اپنی اصلاح کی درخواست کرے اس کی خدمت ضروری ہے مگر بلا رعایت کیونکہ اگر ایسی رعایتیں کی جائیں تو اصلاح کس طرح ہو جیسے طبیب نبض دیکھ کر سمجھ تو لے کہ بخار ہے مگر رعایت کر کے کہے کہ بخار نہیں بلکہ گرم چیز کھانے سے نبض جلدی جلدی چلنے لگی ہے ۔ یہ تاویل ہے تو کیا مریض کو اس طریق سے صحت ہو سکتی ہے یا