ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
یہ تو اب معلوم ہوا کہ تقدیر میں تھا یا نہیں ۔ یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ یہ جو طرز آج کل ہے کہ شبہات کا جواب دیا جاتا ہے اس سے شبہات کا اسقاط نہیں ہوتا گو اسکات ہو جاتا ہے ۔ معترض ساکت ہو جاتا ہے البتہ محبت ایک ایسی چیز ہے جو کافی طور پر کارآمد ہو سکتی ہے ۔ اب صرف یہ سوال رہ گیا کہ محبت کے پیدا کرنے کا طریقہ کیا ہے سو وہ یہ ہے کہ جو اپنے اندر محبت پیدا کر چکے ہیں ان کی جوتیوں میں جا پڑے ۔ جس کو مولانا فرماتے ہیں : قال رابگذار مرد حال شو پیش مردے کاملے پامال شو ( قال کو چھوڑ اور حال پیدا کر اور کسی کامل کے آگے اپنے کو پامال کر دے ۔ ) اگر ان کی صحبت میسر آ جائے بڑی دولت ہے اس لیے کہ عشاق کے مجمع میں جا کر عاشق ہو جاتا ہے ، نمازیوں کے مجمع میں جا کر خود بخود نمازی ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح محبین کے مجمع میں جا کر محب ہو جاتا ہے اور اگر کسی عارض سے محبت پیدا نہ ہو تو ایک دوسرا طریق بھی ہے وہ خوف ہے اس کی ایسی مثال ہے کہ اگر حاکم سے محبت نہ ہو تو خوف کے سبب اس کے احکام کے خلاف نہیں کر سکتا ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ خوف کس طرح پیدا کیا جائے ؟ فرمایا یہ بھی کوئی مشکل بات نہیں جہاں مضرتوں کا مراقبہ کیا خوف پیدا ہو گیا وہ مضرتیں یہ ہیں مثلا جہنم ہے قبر ہے محشر ہے موت ہے ان کے استحضار اور مراقبہ سے خوف پیدا ہو سکتا ہے بس اس کے لیے دو ہی طریقے ہوئے ایک محبت اور ایک خوف ایک کا حاصل ترغیب ہے اور ایک حاصل ترہیب ۔ ایک صاحب کو دس روز قیام کی اجازت ( ملفوظ 213 ) ایک ضعیف العمر شخص حاضر ہوئے ، حضرت والا نے دریافت فرمایا کہ کہاں سے آئے ہو ، عرض کیا کہ ایک موضع ہے ماہی ضلع سہارن پور میں وہاں سے آیا ہوں ، دریافت فرمایا کہ کس غرض سے آئے ہو ، عرض کیا کہ مرید ہونے آیا ہوں ، فرمایا کہ کس قدر قیام رہے گا ۔ عرض کیا کہ ساری عمر بھر اگر صرف ہو جائے تو رہوں گا ، فرمایا کھانے کا کیا انتظام ہو گا ، کہاں سے کھاؤ گے ، عرض کیا اللہ دے گا ، فرمایا کہ تو میرا سوال ہی بیکار رہا ، یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اللہ دیتا ہے مگر کوئی ظاہری سامان بھی ہے ؟ عرض کیا کہ ظاہر میں تو کوئی سامان اس وقت نہیں دریافت کیا ، کیا کام کرتے تھے عرض کیا کہ لوہار ہوں لوہے کا کام کرتا تھا ، فرمایا دیکھو