ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2009 |
اكستان |
|
قسط : ٣ ، آخری چار رَوز اُندلس میں ( جناب مولانا ضیاء المُحسن صاحب طیّب،برمنگھم، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور ) '' اَلْحَمْرَائْ '' : الحمراء مسلمان حکمرانوں اَور انجینئر وں کی صلاحیتوں کا جیتا جاگتا اَور عظیم شاہکار ہے جس کی ایک ایک اینٹ بتا رہی تھی کہ مسلمان صلاحیتوں کے لحاظ سے کسی سے کم اَور پیچھے نہیں۔ آج کے اِس جدید اَور ترقی یافتہ دَور میں بھی اِس طرح کی خوبصورت جگہ نہیں ملتی جو مسلمانوں نے صدیوں پہلے تعمیر کی تھی۔ شاہی محل اَور باغات کا پورا رقبہ سات سو چھتیس میٹر لمبا اَور دو سو میٹر چوڑا ہے جو چار سو سال کی محنت ِشاقہ کے بعد مکمل ہوا۔ اِس کی تعمیر ٩٠٠ء میں شروع ہوئی اور ١٣٦٤ء میں تکمیل ہوئی۔ اس قلعے کے گرد ایک نہایت اُونچی اور مضبوط فصیل ہے جس کے کچھ حصے صدیاں گزر نے کے بعد بھی سلامت ہیں۔ شاہی محل سے نیچے دیکھیں تو غرناطہ شہر نظر آتا ہے اُس وقت کے حکمرانوں نے اِس جگہ کا انتخاب شاید اِسی وجہ سے کیا ہو گا کہ وہ پورے شہر کا نظارہ کریں اُن کی رعایا اُن کی آنکھوں کے سامنے رہے وہ تو سب کو دیکھیں مگر اُنہیںکوئی نہ دیکھے لیکن آج پوری دُنیا یہاں اُمڈ آتی ہے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں کسی کو پر مارنے کی اجازت نہ تھی مگر آج یہاں آنے کی کسی کو ممانعت نہیں بلکہ یہ جگہ آج ہر ایک کے لیے کھلی ہے کہ وہ یہاں آئے اور اِس سے عبرت حاصل کرے کہ ہمیشہ کی بادشاہی اور حکمرانی صرف ایک خدا کے لیے ہے۔ الحمراء کی مضبوط دیواروں اور دروازوں کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ کوئی اِس جگہ کو فتح کر سکتا ہے مگر اِس قلعے کے در و دیوار نے بتا دیا ہے کہ مضبوطی دیواروں میں نہیں بلکہ دل و دماغ میں ہوتی ہے جب اِنسان کا ایمان کمزور ہو جائے تو بڑے بڑے برج بڑی بڑی دیواریں کام نہیں آتیں اِسی جگہ کو فتح کرنے والا طارق کوئی بہت طاقتور اور جنگی سازو سامان سے لیس نہیں تھا بلکہ اُس کے اَندر کا ایمان مضبوط تھا جس نے وہاں کے مضبوط حکمرانوں کو شکست ِفاش دے کر یہ اسپین حاصل کیا تھا مگر اِتنے مضبوط قلعے تعمیر کرنے والے حکمران چونکہ