ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2009 |
اكستان |
|
اُمت ِمسلمہ کی مائیں قسط : ١٠ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہری ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ آ نحصرت ۖ اپنی اِس مجلس سے اُٹھے بھی نہ تھے اَور گھر والوں میں سے کوئی گھر سے باہر نہیں نکلا تھا کہ آپ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو نزول ِوحی کے وقت ہوا کرتی تھی جس سے سردی کے زمانے میں آپ ۖ کی پیشانی مبارک سے پسینہ پھوٹنے لگتا تھا ۔جب یہ کیفیت رفع ہوئی اور اُس وقت جو وحی اللہ جلّ شانہ' نے بھیجی وہ پوری ہوئی تو حضرت رسول کریم ۖ نے ہنستے ہوئے سب سے پہلا کلمہ جو فرمایا وہ یہ تھا یَا عَائِشَةُ اِحْمَدِی اللّٰہَ اَمَّا اللّٰہُ فَقَدْ بَرَّأَ کِ یعنی اے عائشہ ! اللہ کی تعریف کرو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بری کر دیا ۔ میرے والدین نے کہا کھڑی ہو جائو اور آنحضرت ۖ کے پاس حاضر ہو اور آپ کا شکریہ ادا کرو۔ اُس وقت میں بہت زیادہ غصّہ میں تھی ،میں نے کہا کہ میں اِس معاملے میں نہ آپ ۖ کے پاس حاضر ہوتی ہوں نہ اللہ کے سوا کسی کا احسان مانتی ہوں میں صرف اپنے رب کا شکر ادا کر تی ہوں اُسی نے میری براء ت نازل فرمائی ہے، نہ میں آپ کی تعریف کرتی ہوں نہ آپ لوگوں کی تعریف کرتی ہوں۔ آپ لوگوں نے تو بات سن کر اِس کی مخالفت کی ہی نہ تھی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برا ء ت کے سلسلہ میں سورۂ نور کی دس آیات نازل ہوئیں جو اِس سورت کے دُوسرے رکوع سے شروع ہیں جن میں پہلی آیت یہ ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ جَآئُ وْا بِالْاِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَاتَحْسَبُوْہُُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرلَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْھُمْ مَااکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ مِنْھُمْ لَہ عَذَاب عَظِیْم ۔(سُورہ نور آیت ١١) '' جن لوگوںنے یہ تہمت لگائی وہ تمہارے اَندر ایک چھوٹا سا گروہ ہے ۔ تم اِس بہتان کو اپنے حق میں بُرا نہ سمجھو بلکہ یہ(انجام کے اعتبار سے ) تمہارے حق میں بہتر ہی بہتر ہے ۔