ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2009 |
اكستان |
|
ایک دن پہلے کا یا بعد کا ملالینا چاہیے)اور حدیث شریف میں ہے کہ عاشورہ کا روزہ رمضان (کے روزے فرض ہونے) سے پیشتر (بطورِ فرضیت) رکھاجاتا تھا۔ پس جب رمضان (کے روزوں کا حکم) نازل ہوا تو جس نے چاہا (عاشورا کا روزہ) رکھا اور جس نے چاہا نہ رکھا( جمع الفوائد عن الستة الا النسائی) اور اِرشاد فرمایا رسول اللہ ۖ نے جس شخص نے فراخی کی اپنے اہل و عیال پر خرچ میں عاشورہ کے دن، فراخی کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر (رزق میں) تمام سال۔ (رزین و بیہقی و فی المرقاة قَالَ الْعِرَاقِیُّ لَہ طُرُق بَعْضُہَا صَحِیْح وَبَعْضُہَا عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ) پس یہ دو باتیں تو کرنے کی ہیں: ایک روزہ رکھنا کہ وہ مستحب ہے، دُوسرے مصارف میں کچھ فراخی کرنا (اپنی حیثیت کے موافق)اور یہ مباح ہے۔اِس کے علاوہ اَور سب باتیں جو اِس دن میں کی جاتی ہیں خرافات ہیں، لوگ اِس دن میلہ لگاتے ہیں اور حضرات اہل ِبیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مصائب کا ذکر کرتے ہیں اور اُن کا ماتم کرتے ہیں اور مرثیہ پڑھتے ہیں اور روتے چلاتے بھی ہیں اور بعض لوگ تو تعزیہ اور عَلَم وغیرہ بھی نکالتے ہیں اور اُن کے ساتھ شرک و کفر کا معاملہ کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں واجب الترک ہیں، شریعت میں اِس ماتم وغیرہ کی کوئی اصل نہیں ہے بلکہ اِن سب اُمور کی سخت ممانعت آئی ہے تنبیہ : بعض لوگ اِس روز مسجد وغیرہ میں جمع ہوکر ذکرِ شہادت وغیرہ سناتے ہیں۔اِس میں ثقہ لوگ بھی غلطی سے شریک ہوجاتے ہیں اور بعض اہل علم بھی اِس کو جائز سمجھنے کی عظیم غلطی میں مبتلا ہیں۔ درحقیقت یہ بھی ماتم ہے گو مہذب طریقہ سے ہے کہ سینہ وغیرہ وحشی لوگوں کی طرح نہیں کوٹتے لیکن حقیقت ماتم کی یہاں بھی موجود ہے وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ اور اِرشاد فرمایا حق تعالیٰ نے پس جس شخص نے ذرّہ کے برابر نیکی کی وہ اُس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ کے برابربُرائی کی وہ اُس کو دیکھ لے گا۔ چونکہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے ''اصلاح الرسوم'' میں منکرات مروجہ کی نہایت عمدہ طریق پر تفصیل کے ساتھ اِصلاح فرمائی ہے، اِس واسطے اصلاح الرسوم باب سوم کی فصل سوم سے عشرۂ محرم کی رسوم ِقبیحہ کا بیان لکھا جاتا ہے۔ یہ رسوم دو قسم کی ہیں : ایک وہ جو فی نفسہ حرام ہیں، دوسری وہ جو فی نفسہ مباح تھیں مگر فسادِ عقیدہ کے سبب حرام ہوگئیں۔ دونوں کو جدا جدا بیان کیا جاتا ہے۔