ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2009 |
اكستان |
|
ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ( مرتب : حضرت مولانا ابوالحسن صاحب بارہ بنکوی ) ٭ اَنبیاء علیہم السلام اِنسان ہوتے ہیںجو بشری لوازم ہیں اِن میں بھی پائے جاتے ہیں ، وہ بھوک، پیاس ، سردی گرمی، نیند ، بیماری ، دُکھ ،درد، محبت ِاَولاد، نفرت اَز اَعداء وغیرہ اَوصاف ِبشریہ میں مثل تمام اِنسانوںکے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھی مثل تما م اِنسانوںکے احکام ِخداوندی کے مکلف ہیں ، وہ مثل فرشتوںاور اَرواح ِقدسیہ کے اُن احساسات ِبشریہ اَور خواہشات ِنفسانیہ سے منزہ اور بے لوث نہیں ہوتے بلکہ بسا اَوقات انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے قوی اور اِستعدادت ِبشریہ عام اِنسانوں سے بدرجہا زَائد ہوتے ہیں،لیکن انبیاء علیہم السلام میںخیر اور خشیت ِالٰہی کا غلبہ ہوتا ہے حضور دائمی جناب باری عزوجل اسمہ کا حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے خیر کی رغبت اَور شرور سے نفرت اور دُوری رہتی ہے۔ اگر کبھی کبھی بمقتضائے طبیعت یا وساوس ِشیطانیہ کسی معصیت کی طرف میلان ہوتا ہے ، تو حفا ظت خداوندی اَور نگہبانی ربانی رُکاوٹ پیدا کر دیتی ہے اور بیچ میں حائل ہو جاتی ہے، اِس حیلولہ اور رُکاوٹ کا نام عصمت ہے بخلاف فرشوں کی معصومیت کے کہ اُن کے یہاں ایسی خواہشات کا مادّہ ہی نہیں ہوتا، اُن کا معصوم ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ بچے اور عنین میں جماع اَور رغبت الی النساء کا مادّہ ہی نہیںہے اِس لیے اُن کو معصوم کہنا حقیقی نہیںبلکہ مجازی ہے ۔ ٭ انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام میں عصمت گناہوں اور اُن اعمال کے متعلق ہوتی ہے جو کہ اَز قبیل جوارح یا عمل قلب ہیں، اَور جو چیز اَز قبیل ِعلم اَوزرائے ہیں اُن میںعصمت کو دخل نہیں ہے ممکن ہے کہ پیغمبر کی کوئی رائے غلط ہو، البتہ اِس کو جب کبھی عملی جامہ پہننے کا موقع آتا ہے تو وہاں عصمت ِخداوندی آ کرحائل ہو جاتی ہے اَوررائے کی غلطی پر متنبہ کر دیتی ہے بشرطیکہ وہ عمل اَز قسم معاصی ہو ،اور اگر وہ عمل درجہ معصیت نہیں رکھتا ہے بلکہ ازقسم ترک ِاَولیٰ یا بعض درجہ والوں کے لیے معصیت نہیں ہے، یا قسم صغائر ہے تو وہاں عمل کے وقت میں بھی عصمت رُکاوٹ نہیں ڈالتی ، ہاں چونکہ پیغمبری کے درجہ والوں کے لیے وہ سیئہ تھی اِس پر مواخذۂ