ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2009 |
اكستان |
|
باندا میں تم نوجوانوں کی ایک جماعت بنائو ، صدر او ر رُکن بنانے کی ضرورت نہیں ۔بس ایک جماعت ہوجو جگہ جگہ جاکر کام کرنے والی ہو اَور اِس کی تحریک چلائو کہ جتنے بھی نکاح ہوں سب مسجد میںہوں ۔اِس کے علاوہ کسی اور چیز کو ابھی نہ چھیڑو ، ابھی تو بس یہی تحریک چلائو کہ نکاح مسجد میں ہونے لگیں ۔یہ سنت مردہ ہوتی جا رہی ہے ۔حدیث شریف میں آیا ہے اَعْلِنُوا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ نکاح اعلان کے ساتھ کیا کرو اور مسجد میںکیا کرو ۔کھانے پینے ٹھہرنے کا اِنتظام جہاں مناسب ہوکریںلیکن اِس پر زور دوکہ جب نکاح کا وقت ہو توتھوڑی دیر کے لیے مسجد میں آجائیں اور اعلان کر دیا جائے کہ نکاح ہونے جارہا ہے جس کو شریک ہونا ہوگا مسجد میں آجائے گا ۔ کانپور میںمیں نے اِس کی تحریک چلائی الحمدللہ اَب صورتحال یہ ہے کہ بڑے بڑے لوگوں کے یہاں بھی قیام تو کہیں اور ہوتا ہے لیکن نکاح مسجد ہی میں ہوتا ہے ۔یہ سنت مردہ ہو رہی ہے اِس کوزِندہ کرنے کی ضرورت ہے(ہر جگہ کے لوگوں کو چاہیے کہ) اِس کی کوشش کریں۔ بیوی کے حقوق : ایک عالم صاحب نے حضرت سے مشورہ لیا کہ میں مدرسہ میں پڑھاتا ہوںمیری اہلیہ مکان میں میرے ماں باپ کے پاس ہے میں اہلیہ کو مدرسہ لانا چاہتاہوں ۔مدرسہ کی طرف سے مجھے مکان ملا ہے لیکن میری والدہ او ر والد صاحب اِس بات پر راضی نہیں، وہ کہتے ہیں کہ بیوی کو نہ لے جائو او روَجہ اِس کی یہ ہے کہ اِس کے چلے آنے سے میں گھر میں خرچ کم بھیج سکوں گا بیوی رہے گی تو زیادہ بھیجوں گا ۔اور گھر میں مالی اعتبار سے تنگی پریشانی بھی ہے ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ حضرت نے فرمایا کہ بیوی کے بہت سے حقوق ہیں اُن میںسے ایک حق یہ بھی ہے کہ جہاںخود ر ہے اپنے پاس بیوی کو رکھے۔ شریعت کا یہی حکم ہے شریعت کے حکم کے آگے سب کوجُھک جانا چاہیے ۔یہاں تک حکم ہے کہ اُس کی اجازت کے بغیر دُوسری جگہ لیٹے نہیں اُس کے پاس ہی لیٹے ۔حضور ۖ اِن باتوں کاکس قدر خیال فرماتے تھے ۔ایک کی باری میں دُوسری بیوی کے پاس ہرگز نہ جاتے اور جس کی باری ہوتی اُس کے پاس ضرور جاتے، اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ رات میںبیوی کے پاس رہنا یہ اُس کا حق ہے۔ اِن باتوں کو آدمی معمولی سمجھتا ہے حالانکہ اِس کی بہت ا ہمیت ہے۔اِن باتوں کا تعلق حقوق العباد