ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2009 |
اكستان |
|
قسم اوّل کے منکرات : (١) تعزیہ بنانا : اِس کی وجہ سے طرح طرح کا فسق و شرک صادر ہوتا ہے۔ بعض جہلاء کا اعتقاد ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ اِس میں حضرت امام حسین رونق افروز ہیں اور اِس وجہ سے اُس کے آگے نذر و نیاز رکھتے ہیں جس کا مَا اُہِلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ میں داخل ہوکر کھانا حرام ہے۔ اُس کے آگے دَست بستہ تعظیم سے کھڑے ہوتے ہیں، اُس کی طرف پشت نہیں کرتے، اُس پر عرضیاں لٹکاتے ہیں، اُس کے دیکھنے کو زیارت کہتے ہیں اور اِس قسم کے واہی تباہی معاملات کرتے ہیں جو صریح شرک ہیں۔ اِن معاملات کے اعتبار سے تعزیہ اِس آیت کے مضمون میں داخل ہے اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ یعنی کیا ایسی چیز کو پوجتے ہو جس کو خود تراشتے ہو۔ اور طرف ماجرا یہ ہے کہ یا تو اُس کی بے حد تعظیم و تکریم ہورہی تھی اور یا دفعةً اُس کو جنگل میں لے جاکر توڑ پھوڑ برابر کیا۔ معلوم نہیں آج وہ ایسا بے قدر کیوں ہوگیا، واقعی جو اَمر خلافِ شرع ہوتا ہے وہ عقل کے بھی خلاف ہوتا ہے۔ بعضے نادان یوں کہتے ہیں کہ صاحب اِس کو حضرت امام عالی رضی اللہ عنہ مقام کے ساتھ نسبت ہوگئی اور اُن کا نام لگ گیا اِس لیے تعظیم کے قابل ہوگیا۔ جواب اِس کا یہ ہے کہ نسبت کی تعظیم ہونے میں کوئی کلام نہیں مگر جبکہ نسبت واقعی ہو مثلاً حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا کوئی لباس ہو یا اور کوئی اُن کا تبرک ہو۔ ہمارے نزدیک بھی وہ قابل تعظیم ہیں اور جو نسبت اپنی طرف سے تراشی ہوئی ہو وہ ہرگز اسبابِ تعظیم سے نہیں ورنہ کل کو کوئی خود امام حسین رضی اللہ عنہ ہونے کا دعویٰ کرنے لگے تو چاہیے کہ اِس کو اور زیادہ تعظیم کرنے لگو، حالانکہ بالیقین اُس کو گستاخ و بے اَدب قرار دے کر اُس کی سخت توہین کے درپے ہوجائوگے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ نسبت ِکاذبہ سے وہ شے معظم نہیں ہوئی بلکہ اِس کذب کی وجہ سے زیادہ اہانت کے قابل ہوتی ہے۔ اِس بنا پر انصاف کرلو کہ تعزیہ تعظیم کے قابل ہے یا اِہانت کے۔ (٢) معازف و مزامیر کا بجانا : اِس کی حرمت حدیث میں صاف صاف مذکور ہے اَور باب اوّل میں وہ حدیث لکھی گئی ہیں اور قطع نظر خلافِ شرع ہونے کے عقل کے بھی تو خلاف ہے۔ معازف و مزامیر تو سامانِ سرور ہیں، سامانِ غم میں اِس کے کیا معنی؟ یہ تو درپردہ خوشی منانا ہے۔ ع برچنیں دعوائے اُلفت آفریں (٣) مجمع فساق و فجار کا جمع ہونا : اِس میں وہ فحش واقعات ہوتے ہیں کہ ناگفتہ ٔبہ ہیں۔ (٤) نوحہ کرنا : اِس کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے