ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2009 |
اكستان |
|
کی نماز کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں پھر اگر وہ تہجدکے وقت تہجد بھی پڑھتے ہیں تو آٹھ کہاں رہیں آٹھ سے بڑھ جائیں گی یہ اُن کے اپنے ہی دعوی کے خلاف عمل ہوگا اَور اُن میں جو تہجد نہیں پڑھتا تو وہ افضل وقت چھوڑ تا ہے آسان راہ اِختیار کرتا ہے اَور سنت چھوڑ تا ہے۔ (٤) اِن راتوں کی آخری شب جناب ِ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا تھا کہ ''میں نے جو کچھ تم کرتے رہے ہو دیکھا ہے اَور میں سمجھ گیا تھا(لیکن) اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھو کیونکہ سب سے افضل نماز اِنسان کی وہ ہے جو وہ گھر میں پڑھے سوائے فرض نماز کے (کہ وہ مسجد میں افضل ہے) ۔'' (بخاری ص ١٠١ج ١ بَابُ صَلٰوةِ اللَّیْلِ )۔ اِس حدیث سے جوبات ظاہرًا سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ جناب ِ رسول اللہ ۖ '' فَصَلُّوْا'' فرماکر اُنہیں گھر میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اَور اَمر وجوب کے لیے ہوتاہے۔ لہٰذا اُن لوگوں پر جو اپنا نام اہل ِ حدیث رکھتے ہیں یہ واجب ہے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھیں نہ کہ مسجد میں۔ رہا ہمارے نزدیک تو ہم وہ راہ اختیار کرتے ہیں جو اُن صحابہ کرام نے اختیار فرمائی کہ جنہوںنے جناب ِ رسول اللہ ۖ کو دیکھا ہے ساتھ رہے ہیں اَور آپ کے ساتھ نماز اَدا کی۔ اَور ہم وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جو فقہا اَور محدثین نے اختیار کیا اَور ہم سلف کی پیروی کرتے ہیں۔ (٥) یہ بھی غور کریں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرہ مبارکہ میں موجود تھیں اُنہوں نے رد نہیں کیا اور اُن کی پوری زندگی میں بیس رکعت تراویح سے ممانعت منقول نہیں ہے۔ حالانکہ صحابہ و تابعین کا مسجد رسول اللہ ۖ میں بیس رکعت تراویح پڑھنا اُن کے نظروں کے سامنے تھا لہٰذا اِسی پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ یہ وہ عمل ہے جس پر اصحاب ِ رسول اللہ ۖ کا اِتفاق ہوا۔ اِمام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے اپنی جامع میں فرمایا ہے : ''قیام ِ رمضان کے بارے میں اہل ِ علم میں اختلاف ہے بعض حضرات اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وتر سمیت اکتالیس رکعتیں پڑھے اَور یہ اہل ِ مدینہ کا قول ہے اَور مدینہ شریف میں اُن کے یہاں اِسی پر عمل کیا جاتا ہے۔'' اَور اکثر اہل ِ علم اِس مسلک پر ہیں جو حضرت علی اَور حضرت عمر اَور اِن حضرات کے علاوہ جناب ِ