ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2009 |
اكستان |
|
رکعتیں ہوتی ہیں لہٰذا جس نے بھی حضرت عائشہ کی روایت سے جناب ِ رسول اللہ ۖ کی نماز کا آٹھ ہی رکعت میں حصر کیا ہے اُس نے غلطی کھائی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس اُن کے مکان میں رات گزاری تو اُنہوں نے یہ بتلایا ہے کہ '' جناب ِ رسول اللہ ۖ نے دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پڑھیں پھر وتر اَدا کیے۔ پھر آپ لیٹ گئے حتی کہ مؤذن آیا تو آپ نے کھڑے ہو کر دو خفیف رکعتیں پڑھیں پھر باہر تشریف لے گئے صبح کی نماز اَدا فرمائی۔ (بخاری ص١٦٠بَابُ اِسْتِعَانَةِ الْیَدِ فِی الصَّلٰوةِ اِذَاکَانَ مِنْ اَمْرِ الصَّلٰوةِ) اِس حدیث شریف سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ جناب ِ رسول اللہ ۖ نے فجر کی دو رکعتوں سمیت سترہ رکعتیں پڑھی ہیں۔ حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہماکی اَورخودحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے صحیح بخاری ہی میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جناب ِ رسول اللہ ۖ گیارہ رکعتوں سے زیادہ پڑھا کرتے تھے اَور یہ حصر کرنا باطل ہوگیا کہ گیارہ ہی رکعتیں ہی پڑھا کرتے تھے۔ (١) لہٰذا اِن روایات کے علاوہ اُن دُوسری روایات کی طرف رُجوع کرنا ضروری ہوگا جنہیں صحابہ کرام اسلاف و تابعین اَور فقہاء محدثین نے لیا ہے اَور اِس کی چند صورتیں ہیں اُن میں سے کوئی صورت اِختیار کر لے۔ (٢) دُوسری بات یہ ہے کہ اُن کی حدیث میں'' غیر رمضان ''کا جملہ آیا ہے۔ یہ جملہ ہی یہ بتلا رہا ہے کہ حدیث میں اُن کی مراد تہجد ہے کیونکہ ''غیر رمضان '' میں جو نماز ہوتی ہے وہ تہجدہی ہوتی ہے اَور تراویح صرف رمضان میں ہوتی ہے۔لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ روایت سے نماز ِ تراویح کی رکعتوں پر استد لال کرنا ہی صحیح نہیں ہے۔ (٣) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت پر غیر مقلدوں کا (جو اپنے آپ کو اہل ِ حدیث کہتے ہیں) بھی عمل نہیں ہے کیونکہ وہ آٹھ رکعتیں دو دو رکعت کر کے پڑھتے ہیں نہ کہ چار چار۔ نیز وہ اِس نماز کو عشاء