ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2007 |
اكستان |
|
حکیم فیض عالم صدیقی کا خط بسم اللہ الرحمن الرحیم حکیم فیض عالم صدیقی محلہ مستریاں جہلم 8-10-76 محترمی سید صاحب! السلام علیکم! میرا خیال تھا کہ اَب کسی موضوع کو مناظرانہ رنگ نہ دیتے ہوئے آئندہ اِفہام و تفہیم تک ہی خط و کتابت کو محدود رکھیں گے بلکہ میرا خیال یہ بھی تھا کہ اِفہام و تفہیم کو بھی اِس حد تک محدود رکھوں گا کہ جس بات میں اِختلاف ہوگا اُس پر خاموش رہوں گا مگر آپ نے حالیہ گرامی نامہ میں جو طرز ِتکلم اِختیار کیا ہے ضرورت سمجھی کہ اُس کے متعلق ضرور کچھ عرض کردُوں۔ آپ کے گرامی نامہ سے جو کچھ معلوم ہوا اُس کے ذیل میں مندرجہ ذیل باتیں سمجھ سکا ہوں۔ ١۔ سیدنا علی خلیفہ رابع تھے۔ ٢۔ علماء دیوبند کی باتوں میں بقول مؤلف زلزلہ تعارض ہے کے جواب میں یہ صرف بات ہے اور دلیل کوئی نہیں۔ نہ علمائے دیوبند آپ کی یا مؤلف زلزلہ کی طرح علم سے تہی دامن ہیں۔ ٣۔ حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ' وقدس سرہ' کے مکتوبات کے حوالہ سے وہ عبارت دی ہے جو آپ نے نقل کی ہے صرف اُتنی ہی عبارت دی ہے تو بڑی کم فہمی کا ثبوت دیا۔ ٤۔ علامہ عصر کے سامنے جس نے اَنورشاہ لکھا ہے غلط لکھا ہے محشی کی مراد اُس سے حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ ہیں۔ ٥۔ حدیث کو حسن کا درجہ دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ میں اِسے موضوع نہیں مانتا۔ میری اس بات سے مکتوبات کی تحریر کا کیا تعارض؟ ٦۔ ''سیدنا علی کا حدیث میں حصہ '' اِس پر آپ کا اِرشاد علم ِحدیث سے بہت زیادہ ناواقف ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ ٧۔ مجتہد، حافظ الحدیث، محقق، مصنف، مؤلف کہلانے کا شوق، حالانکہ ایسے آدمی کے لیے ایسے نازک موضوعات پر قلم اُٹھانا نہایت خطرناک ہے۔