ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2007 |
اكستان |
|
٨۔ ٧٨٦ اور ٧٨٧ کا مسئلہ۔ ٩۔ آپ کو میری تحریر سے کوئی فائدہ ہورہا ہو۔ ١۔ سیدنا علی خلیفہ رابع تھے۔ میں نے اِس ضمن میں نبی اکرم ۖ کے واضح اِرشادات قلم بند کیے تھے اور آخر میں اِس حدیث کی طرف اِشارہ بھی کیا تھا۔ وَعَلِیّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ نُّؤَمِّرُ بَعْدَکَ قَالَ اِنْ تُؤَمِّرُوْا اَبَابَکْرٍ تَجِدُوْہُ اَمِیْنًا زَاھِدًا فِی الدُّنْیَا رَاغِبًا فِی الْاٰخِرَةِ وَاِنْ تُؤَمِّرُوْا عُمَرَ تَجِدُوْہُ قَوِیًّا اَمِیْنًا لَایَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَةَ لَائِم وَاِنْ تُؤَمِّرُوْا عَلِیًّا وَلَااَرَاکُمْ فَاعِلِیْنَ تَجِدُوْہُ ھَادِیًا مَّھْدِیًّا۔ الخ کیا وَلَااَرَاکُمْ فَاعِلِیْنَ پر غور فرمایا ہے۔ نبی علیہ السلام نے نورِ نبوت سے ایک رُبع صدی پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ علی کو خلیفہ نہیں بنایا جائے گا اور آخر میں ایسا ہوکر رہا کہ صحابۂ کرام میں سے سوائے سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر کے کسی ایک صحابی نے بھی آپ کی بیعت نہ کی اور اُنہوں نے بھی مالک اَشتر مجوسی کی تلوار کے سایہ میں اور پھر رات کو ہی مدینہ سے مکہ روانہ ہوگئے۔ آپ ہر بات میں اپنی علمیت کا رُعب ڈالتے ہیں اور شاید ہر مخاطب کو آپ جاہل ہی سمجھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نبی اکرم ۖ کے فرمودات کی موجودگی میں اور پھر عملاً جیسا ہوا یعنی کسی ایک صحابی نے بھی سیدنا علی کے ہاتھ پر بیعت نہ کی اور آپ نے مدینہ کی فضا اپنے آپ پر تنگ پاکر کوفہ کو مستقر بنایا۔ ان حقائق کی موجودگی میں طحاوی اور مسامرہ کے اَقوال ویسے ہی ہیں جیسے آج شیعہ ہر اذان میں خَلِیْفَتُہ بِلَا فَصْلٍ کہے جارہے ہیں۔ غالبًا اَلْخِلَافَةُ بِالْمَدِیْنَةِ وَالْمُلْکُ بِالشَّامِ بھی آپ کی نظر سے گزری ہو۔ اَب پکارئیے اُن کو جن کے بل پر آپ ہر آدمی کو جاہل سمجھ رہے ہیں کہ حضرت نکالیے کوفہ کہیں سے؟ آپ کو اپنی علمیت کا زعم دائیں بائیں نہیں دیکھنے دیتا۔ نبی علیہ السلام کے اِس اِرشاد پر غور کیجیے۔ وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ تَدُوْرُ رُحَی الْاِسْلَامِ لِخَمْسٍ وَّثَلاثِیْنَ اَوْ سِتِّ وَّثَلاثِےْنَ اَوْ سَبْعٍ وَ ثَلاثِےْنَ فَاِنْ یَّھْلِکُوْا فَسَبِیْلُ مَنْ ھَلَکَ وَاِنْ یَّقُمْ لَھُمْ دِیْنُھُمْ یَقُمْ لَھُمْ سَبْعِیْنَ عَامًا قُلْتُ اَمِمَّابَقِیَ اَوْ مِمَّا مَضٰی قَالَ مِمَّامَضٰی ۔