ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2007 |
اكستان |
|
اَللَّطَائِفُ الْاَحْمَدِےَّہ فِی الْمَنَاقِبِ الْفَاطِمِےَّہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ( حضرت علامہ سےّد احمد حسن سنبھلی چشتی رحمة اللہ علیہ ) (٦٣) اَخْرَجَ الْحَاکِمُ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ قَالَ قَالَتْ فَاطِمَةُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ زَوَّجْتَنِیْ مِنْ عَلِیٍّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ وَھُوَ فَقِیْر لَامَالَ لَہ فَقَالَ یَافَاطِمَةُ اَمَاتَرْضِیْنَ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ اِطَّلَعَ عَلٰی اَھْلِ الْاَرْضِ فَاخْتَارَ رَجُلَیْنِ اَحَدُھُمَا اَبُوْکِ وَالْاٰخَرُ بَعْلُکِ۔(اِزالةُ الخفاء عن خلافة الخلفائ) حاکم نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضرت فاطمہ نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ آپ نے میرا نکاح حضرت علی بن ابی طالب سے کیا ہے اور وہ فقیر ہیں کچھ بھی مال اُن کے پاس نہیں (یعنی بقدر ِ حاجت ِضروریہ بھی مال نہیں ۔اور بقدر ِ حاجت سے ایسے حضرات کی مراد یہ ہوتی ہے کہ جو بسر اوقات کو معمولی طور پر کافی ہوجاوے وہ حاجت مراد نہیں جس کو اہل ِ دُنیا عیش و عشرت والے حاجت سمجھتے ہیں کبھی اُن کی حرص ہی ختم نہیں ہوتی) پس فرمایا اے فاطمہ کیا تم اِس بات سے راضی نہیں کہ اللہ عزوجل نے آگاہی پائی اہل ِ زمین پر پس پسند کیا دو مردوں کو ایک اُن میں کے تمہارے باپ (یعنی میں) ہیں اور دُوسرے اُن میں کے تمہارے خاوند (یعنی علی) ہیں۔ یہ اِبتدائی حالت تھی حضرت فاطمہ کی ،سب کمالات ابتداء ہی سے اَولیاء کو میسر نہیں ہوتے رفتہ رفتہ ترقی ہوتی ہے اور بقدر ِ حاجت مال کی ہر شخص کو حاجت ہے پس ابتدائے حال میں بھی یہ اَمر حرص پر دلالت نہیں کرتا ،نہ اِس سے عیش و عشرت کی بو نکلتی ہے اور جب آپ نے دینی نفع (یعنی حضرت علی کا دینی رُتبہ) معلوم کرلیا تو غنیمت سمجھا کہ ایسے خاوند کی ہمسائیگی بڑی غنیمت ہے اور عورت کے لیے بڑا فخر ہے سو خاموشی