ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2007 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( بیوی کا مجامعت میں حق ) مسئلہ : نکاح کے بعد ایک مرتبہ مجامعت بیوی کا ایسا حق ہے جس کے لیے وہ قانونی چارہ جوئی بھی کرسکتی ہے۔ اگر نامردی (lmpotency) کی بنا پر شوہر ایسا نہ کرسکے تو بیوی نکاح فسخ بھی کراسکتی ہے۔ مسئلہ : ایک مرتبہ سے زائد میں یہ صورت ہے کہ ہر چار مہینے میں ایک مرتبہ یہ بھی بیوی کا حق ہے جو شوہر کے ذمّہ واجب ہے اور عورت کی رضامندی اور خوشی کے بغیر مجامعت ترک کیے پورے چار مہینے گزاردینا جائز نہیں ہے۔ پھر اِس وجوب میں اختلاف ہے۔ عام قول یہ ہے کہ یہ وجوب اَز رُوئے دیانت ہے یعنی مرد کو یہ حق اَدا نہ کرنے پر گناہ ہوتا ہے اگرچہ بیوی اِس کے لیے قانونی چارہ جوئی نہیں کرسکتی لیکن بعض دُوسرے فقہاء کا کہنا ہے کہ اِس کے لیے بھی عورت عدالت کے ذریعے سے شوہر کو اِس کی اَدائیگی پر مجبور کرسکتی ہے۔ البتہ بیماری یا عارضی نامردی پیش آجائے تو یہ اِس حق کی اَدائیگی میں عذر بن سکتا ہے۔ مسئلہ : بیوی کی رضامندی سے شوہر چار مہینے سے زائد مجامعت کو چھوڑسکتا ہے لیکن پھر جب بیوی کا مطالبہ ہو تو شوہر کو اُس کا مطالبہ پورا کرنا ہوگا۔ مسئلہ : بیوی سے ایک دن میں اُس کی طاقت سے زائد مقدار میں مجامعت کرنا یعنی جس سے اُس کو ضرر و تکلیف ہو جائز نہیں۔ اگر معاملہ عدالت میں چلاجائے تو عورت اپنے تحمل کے بارے میں بیان دے اور اِس پر قسم بھی کھائے جس پر قاضی و جج شوہر پر اِس مقدار سے زائد پر پابندی لگادے۔ مسئلہ : لڑکی اگر اَبھی نابالغ ہو اور اُس کا شوہر بالغ ہوچکا ہو تو اگر لڑکی کا جسم اِتنا چھا ہے کہ وہ مرد کا تحمل کرسکتی ہے تو شوہر اُس کی رُخصتی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اگر لڑکی کا باپ شوہر سے متفق نہ ہو تو قاضی و جج اُس لڑکی کا لیڈی ڈاکٹر وغیرہ سے معائنہ کراکر فیصلہ دے گا۔ مسئلہ : بالغہ لڑکی بھی اگر ایسے ہلکے اور کمزور جسم والی ہو کہ مرد کا تحمل نہ کرسکتی ہو تو اُس کے باپ کو یہ حکم نہیں دیا جاسکتا کہ وہ لڑکی کو شوہر کے سپرد کردے۔