ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2007 |
اكستان |
|
قانون سے) زیادہ ہوتا ہے اور نہ اُس کا محصول دیتے ہیں نہ وزن کراتے ہیں (نہ رسید کٹاتے ہیں)۔ اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خود تو تیسرے درجہ (تھرڈ کلاس) کا ٹکٹ لیا تھا لیکن اتفاق سے میانہ درجہ (سیکنڈ کلاس) میں کوئی دوست بیٹھا ہے تو اُس کے پاس جاکر بیٹھ گئے اور دو تین اسٹیشن تک اُس پر بیٹھے چلے گئے یا ٹکٹ لیا دو تین اسٹیشن کا اور چلے گئے بہت دُور تک۔ اِن سب صورتوں میں یہ شخص ریلوے محکمہ کا قرض دار رہتا ہے اور قیامت کے دن اُس سے وصول کیا جائے گا۔ اگر کبھی ایسی غلطی ہوگئی ہو تو اُس کے اَدا کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ حساب کرکے جس قدر ریلوے کی قیمت اپنے ذمّہ نکلے اُس قیمت کا ایک ٹکٹ خرید کر اُس سے کام نہ لے اِس سے محکمہ کا روپیہ بھی اَدا ہوجائے گا اور اُس شخص پر کوئی اِلزام بھی نہ آئے گا۔ (تفصیل التوبہ دعوات عبدیت ص ٨/٤٦) رشتہ داروں سے پردہ میں کوتاہی : ایک کوتاہی عورتوں میں یہ ہے کہ اِن میں پردہ کا اہتمام کم ہے۔ اپنے عزیزوں رشتہ داروں میں جو نامحرم ہیں (یعنی جن سے رشتہ ہمیشہ کے لیے حرام نہیں ہے) اُن کے سامنے بے تکلف آتی ہیں۔ ماموں زاد، چچا زاد، خالہ زاد بھائیوں سے بالکل پردہ نہیں کرتی ہیں اور غصب یہ کہ اُن کے سامنے بنائو سنگار کرکے بھی آتی ہیں پھر بدن چھپانے کا ذرا بھی اہتمام نہیں کرتیں گلا اور سر کھلا ہوا ہے اور اُن کے سامنے آجاتی ہیں اور اگر کسی کا بدن ڈھکا ہوا بھی ہو تو کپڑے ایسے باریک ہوتے ہیں جن میں سارا بدن جھلکتا ہے حالانکہ باریک کپڑے پہن کر محارم کے سامنے آنا بھی جائز نہیں کیونکہ محارم یعنی جن سے رشتہ کرنا حرام ہے اُن سے پیٹ اور کمر اور پہلو اور پسلیوں کا چھپانا بھی فرض ہے۔ پس ایسا باریک کُرتہ پہن کر محارم (مثلاً بھائی چچا وغیرہ) کے سامنے آنا بھی جائز نہیں جس سے پیٹ یا کمر یا پہلو یا پسلیاں ظاہر ہوں یا اُن کا کوئی حصہ نظر آتا ہو شریعت نے تو محارم کے سامنے آنے میں بھی اِتنی قیدیں لگائی ہیں اور آج کل کی عورتیں نامحرموں کے سامنے بھی بے باکانہ آتی ہیں گویا شریعت کا پورا مقابلہ ہے۔ بیبیو! پردہ کا اہتمام کرو اور نامحرم رشتہ داروں کے سامنے قطعًا نہ آئو اور محرم کے سامنے احتیاط سے آئو (الکمال فی الدین ص ١٠٨)۔(جاری ہے)