ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2007 |
اكستان |
|
نامردی کی بناء پر فسخ ِنکاح کی تفصیل : نامردی اِس کو کہتے ہیں کہ آلہ تناسل ہونے کے باوجود مرد جماع کرنے پر قادر نہ ہو خواہ یہ حالت کسی مرض کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو یا ضعف کی وجہ سے یا بڑھاپے کی وجہ سے یا اِس وجہ سے ہو کہ کسی نے اِس پر جادو کردیا ہو۔ اگر ایسا شخص ہو کہ ایک بیوی سے جماع کرنے پر قادر ہے اور دُوسری پر نہیں تو جس سے جماع پر قدرت نہیں اُس کے حق میں یہ شخص نامرد سمجھا جائے گا۔ نامرد کی زوجہ کو اِن شرائط کے ساتھ اپنے خاوند سے تفریق اور علیحدگی اختیار کرنے کا شرعًا حق ہے : پہلی شرط : یہ ہے کہ نکاح سے پیشتر عورت کو اِس کے نامرد ہونے کا علم نہ ہو۔ اگر نکاح سے پہلے اِس کا علم تھا اور اِس کے باوجود نکاح کیا تو اَب اِس کو تفریق کا حق نہیں ہوگا۔ دُوسری شرط : یہ ہے کہ شوہر نکاح کے بعد ایک مرتبہ بھی بیوی سے جماع نہ کرسکا ہو۔ اگر ایک مرتبہ جماع کرنے کے بعد نامرد ہوا تو عورت کو تفریق کا حق حاصل نہ ہوگا۔ تیسری شرط : یہ ہے کہ جب سے عورت کو شوہر کے نامرد ہونے کی خبر ہوئی ہے اُس وقت سے عورت نے شوہر کے ساتھ رہنے پر رضامندی کی تصریح نہ کی ہو۔ سکوت کو بھی رضامندی نہ سمجھا جائے گا۔ چوتھی شرط : یہ ہے کہ جس وقت سال بھر کی مدت گزرنے کے بعد قاضی و جج عورت کو اختیار دے تو عورت اُسی مجلس میں علیحدگی کو اختیار کرلے۔ کسی اور بات میں لگ گئی یا وہاں سے اُٹھ گئی تو پھر اِختیار نہ رہے گا۔ علیحدگی حاصل کرنے کا طریقہ کار : عورت اپنا معاملہ کسی مسلمان جج کی عدالت میں پیش کرے۔ جج واقعہ کی تحقیق کرے یعنی پہلے شوہر سے دریافت کرلے اگر وہ خود اِقرار کرے کہ وہ جماع پر قادر نہیں ہوا تو جج اُس کو علاج کی خاطر ایک شمسی سال کی مہلت دیدے۔ اِس سال بھر کے عرصہ میں اگر شوہر علاج کرکے تندرست اور جماع پر قادر ہوگیا اور ایک مرتبہ بھی جماع کرلیا تو عورت کو علیحدگی کا حق نہیں رہا۔ اور اگر اِس عرصہ میں ایک مرتبہ بھی جماع نہ کرسکا تو عورت کے دوبارہ درخواست دینے پر جج تحقیق کرے۔ اگر شوہر اِقرار کرلے کہ وہ قادر نہیں ہوا تو جج عورت کو اختیار دیدے کہ اگر علیحدگی درکار ہو تو طلب کرو۔ عورت اگر اُسی وقت علیحدگی طلب کرلے تو جج دونوں میں تفریق کردے مثلاً یوں کہہ دے کہ میں نے تجھ کو اِس کے نکاح سے الگ کردیا۔ یہ تفریق ایک طلاق بائنہ