ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2007 |
اكستان |
|
حسرت ( حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب مدظلہم ) رمضاں بھی گزر گیا یوں ہی چڑھ کے آیا ، مگر گیا یوں ہی مَوج آئی نہ کوئی ساحل تک دِل کا دَریا اُتر گیا یوں ہی ماہِ نو عشق کی طرح آیا ہم پہ اِلزام َدھر گیا یوں ہی کیا سُہانی سُہانی راتیں تھیں خواب تھا جو بکھر گیا یوں ہی دامنِ دِل نہ بھر سکا اَب کے موسمِ گُل گزر گیا یوں ہی لگ رہی ہے فَضا اُداس اُداس ہائے سُنسان کر گیا یوں ہی ذکرِ جاناں سے جاں میں جاں آئی زِیست کا رُخ نکھر گیا یوں ہی اُن ۖ کا غم تو محیطِ عالَم ہے میرے سینے میں بھر گیا یوں ہی سَفَرِ حج بہت مبارک ہے کیا کریں گے ، اگر گیا یوں ہی اللہ اللہ اُس کا بَخْت نفیس جو مدینے میں مر گیا یوں ہی