ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2007 |
اكستان |
|
عبادات میں شریک کرنا اور سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہو گا کہ کسی ایسے فعل یا قول کا اِرتکاب کیا جائے جو کہ موہمِ شرک وکفر ہو ،مگر دل میں یقین ِکا مل اور ایمان ِصریح موجود ہو ۔ ٭ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جن کے درجہ پر کوئی ولی نہیں پہنچ سکتا ،اُن کی شان میں فرمایا جاتا ہے یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا معیت اور دوام ِحضور بڑی چیزیں اور انعام عظیم ہیں مگر مقصود اصلی رضاء خداوندی ہے ،اگر شہنشاہ کی دربار داری اور حاضر باشی حاصل ہو جائے اور معاذ اللہ رضائے شاہی نصیب نہ ہو تو خسارہ اَبدی ہے۔ ٭ ذات ِمقدسہ بے مثل ہے اور بے مثال ہے۔ اِسی طرح دھیان متوجہ رہنا چاہیے لَیْسَ کَمِثْلِہ اُس کی شان ہے لَمْ یَکُنْ لَّہ کُفُوًا اَحَد اُس کی آن ہے ،وہی مقصودِ اِنس وجان ہے ۔ ٭ رسول اللہ ۖ (دُعا میں )اِرشاد فرماتے ہیں مَاعَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ وَمَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ (اوکما قال )غرضیکہ اپنی طرف سے جدو جہد ،اعمال کی تتمیم اور اخلاص کی تکمیل ہمیشہ جاری رہنی چاہیے اور بارگارہِ خداوندی میں اِقرار بالتقصیر کے ساتھ جو کہ واقعی ہے معافی کی درخواست ہمیشہ جاری رہنی چاہیے۔ ٭ اللہ اپنے فضل وکرم سے اپنے مقرب بندوں کو واسطہ بنا کر فیض پہنچاتا ہے اور اُن کی صورت رُوحانی کو ظاہر کرتا ہے ،اشخاص کو خبر بھی نہیں ہوتی ہے یہ قدرت کے کارخانے ہیں ،تعجب کی بات نہیں۔ ٭ چونکہ دُنیا دارُ الاسباب ہے ،اگر معاش کی تنگی سے فکر معاش ہو تو اِس کو دُنیا کی محبت نہیں کہا جاسکتا، دُنیا خدا سے غفلت کا نا م ہے۔ ٭ دُنیا میں تکالیف خواہ کسی قسم کی ہوں اہل ِایمان کے لیے نعمتیں ہیں ،کفارئہ سےّاٰت ہیں،رفع درجات کے ذرائع ہیں۔ ٭ دُنیا میں ہم پاک وصاف ہو جائیں اور آخرت کی تکالیف سے ہماری رُستگاری ہو جائے تو انتہائی کامیابی ہے ۔ ٭ قرآن شریف کا مشغلہ اور اُس میں دل لگنا اور اُس کے پڑھنے میں کیفیاتِ عجیبہ اور سرور کا پیدا ہونا اور اِس طرح لذت اور لطف کا ظہور کہ چھورنے کو جی نہ چاہے ،نہایت عظیم الشان نعمت ہے۔