ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2007 |
اكستان |
|
٭ اَورادوظائف میںبرکت صاحب ِمجاز کی اِجازت سے ہوتی ہے اور بعض موثر وظائف میں تاثیر موقوف ہی اجازت پر ہے کیونکہ صاحب ِمجاز زکوة وغیرہ دیے ہوتا ہے۔ ٭ جوکام اِصلاح کا ہو اور شیطان کی خواہشات کے خلاف ہو اُس میں طبیعت کا گھبرانا اور نفس پر بوجھ پڑنا ضروری ہے،مگر استقلال اور مداومت سے آہستہ آہستہ اُس میں آسانی ہو جاتی ہے۔ ٭ اپنی حقیقت کو پہچاننا اور اِس کی افادیت مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ سے ظاہر ہے لیکن لفظ اَنَا کے مفہوم اور مصداق کا سوال ایک اَجل البد یہیات کا سوال ہے جو کہ لٰٰکِنْ تَنْقِیْحُ حَقِیْقَةٍ عَسِیْر جِدًّا کے ماتحت آتاہے۔چونکہ رُوح ہی انسانِ حقیقی ہے اور جسم بمنزلہ لباس اور آلات ہے جس سے رُوحانی طاقتوں اور کمالاتِ اِستعدادیہ کا مظاہر ہ ہوتاہے اِسی لیے حقیقت شناس حضرات مصدرِ انسانیت رُو ح ہی کو قرا دیتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ کو جو منظور ہو اُس پر انسان کو خوشی سے راضی رہنا چاہیے ،ورنہ بہ مجبوری راضی ہونا پڑے گا ۔اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تو انبیاء علیہم السلام کو سرجھکانا پڑتا ہے اور بغیر ماننے کے چارہ نہیں ہوتا، اولیاء اللہ کو کون پوچھتاہے۔ ٭ لوازمِ عبودیت میں سے ہے کہ بندہ آقا کے حکم اور اُس کی مرضی کا نہ صرف تابع بلکہ اُس پر خوش بھی رہے اور منازلِ عشق میں تو اُس کی رضوان اور خوشنودی نصب العین اور بالذات ہونی چاہیے ۔ ٭ کوئی عبادت ایسی نہیں ہے جس میں تقیدات نہ ہوں ،مگر ذکر کے لیے کوئی قید نہیں ہے اور اَکثر جس قدر بھی ممکن ہو مطلوب ہے۔