ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2002 |
اكستان |
|
مشنری ادارے ''فرینڈز''کے بین الاقوامی ڈائریکٹر ''رک لو''کے انٹر نیٹ آرٹیکل کے مطابق ١١ستمبر اور اس کے بعد کے واقعات کے بعد مسلمانوں کو زیادہ تعداد میں عیسائی بنانے کا موقع ملے گا اور زیادہ آزادی سے عیسائیت کی تبلیغ ہو سکے گی ۔تاہم اس مضمون میں ''رک لو'' نے یہ اعتراف کیا ہے کہ حفاظتی نقطہ نظر کے باعث کئی مشنریوں کے مقامات تبدیل بھی کئے گئے ہیں ۔ یہ ادارہ فرینڈز ١٩٨٣ء میں امریکہ میں قائم ہوا تھا او ر اس وقت اس کے ٤٠ مسلمان ملکوں میں ٦٠٠ سے زائد کارکن کام کر رہے ہیں ۔ اس ادارے کے متعلق عالمی پریس میں ذکر آرہا ہے یہ ادارہ ١٢ تک کے ارکان پر مشتمل ٹیم کے ذریعے کام کرتے ہیں ۔کسی ملک میںجانے سے قبل یہ لوگ کم ازکم دو ہفتے کا زبان اور کلچر کا کورس کرتے ہیں جس میں قرآن پاک کی تعلیم بھی شامل ہوتی ہے ۔ایک مشن خفیہ رکھنے کا جواز پیش کرتے ہوئے ادارے کی ویب سائیٹ بنائی ہے کہ زیادہ تر مسلمان ایسے ملکوں میں رہتے ہیںجہاں مشنری ٹیوں کو جانے کی اجازت نہیں لیکن ہمیں خدا کی طرف سے تمام ملکوں میںلوگوں کو عیسائی بنانے کا حکم دیا گیا ہے ۔اس ادارے کے مطابق ان ملکوں میں مشنری پکڑا جائے تواسے سخت سزا ملتی ہے۔سعودی عرب میں ایسے لوگوں کو موت کی سزا دی جاتی ہے ۔اسی طرح پاکستان میں بھی توہین رسالت ۖ کے قانون کے تحت ایسی ہی سزا ملتی ہے۔ غرض کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اہل مغرب کے دلوں میں اسلام کے خلاف بغض و کینہ کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور یہ لوگ اپنے مخصوص معاشی مفادات کی فصل کاٹنے کے لیے بظاہر تو مسلمانوں کی خیر خواہی کا دم بھرتے ہیں لیکن ان کا باطن مسلمانوں سے نفرت بھرا ہے ۔ ان کی یہ پالیسی نہایت مکارانہ انداز کی ہے۔ان کا واحد مقصد عالم اسلام کو اپنے پنجہ استحصال میں جکڑے رکھنا ہے اور اپنی اس استعماری پالیسی میں انہیں ہر مرحلہ پر کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں ۔انہوں نے سعودی عرب ،کویت ، متحدہ عرب امارات کے مالی وسائل پرجس پراسرار انداز میں شب خون ماررکھا ہے وہ پوری دنیاکے سامنے بالکل عیاں ہے۔ مغربی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو لہر ابھری ہوئی ہے ۔اس کی شدت کااندازہ مندرجہ بالا حقائق و واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتاہے ۔ ان دنوں برطانیہ میں صرف ''برٹش نیشنل پارٹی '' ہی مسلمانوںسے نفرت نہیںکرتی بلکہ اب تو برطانیہ کے بعض معروف سیاستدان بھی دو قدم آگے ہیں ۔یہ لوگ برطانوی معاشرہ میں مسلمانوںکا تمسخر اڑاتے ہیں۔ محفلوں میں رسوا کن لطیفے پر اپنی بات ختم کرتے ہیں ۔ان لوگوں کایہ کردارنہایت شرمناک ہے۔ گوروں کا یہ تضحیک آمیز رویہ کب تک جاری رہے گا ۔ان جیسے لوگوں کے دلوں میں اسلام اور پاکستانیوں کے خلاف بلا وجہ اور بلا مقصد پائی جانے والی نفرت کو ن او ر کب ختم کرے گا۔ قابل تشویش بات تو یہ ہے کہ مغربی دنیا میںعناد کے یہ فاصلے دراز ہوتے جارہے ہیں مستقبل میںکیا صورت حال ہوگی ۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے غیر سفید فام لوگوں کو کافی پریشان کر رکھاہے۔ (بشکریہ روز نامہ نوائے وقت ١٩جولائی ٢٠٠٢ئ)