جاگتے عبادت وغیرہ میں اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی جگا دیتے۔
شب قدر کو مبہم رکھا گیا
اگر اتنا بھی نہ ہوسکے تو کم ازکم آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تو ضرور جاگنے کا اہتمام کرنا چاہئے کہ زیادہ تر آخری عشرہ کی انہی طاق راتوں میں شب قدر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے اس رات کو مبہم رکھا، بتاکر اس کو مخفی کردیا گیا، اس میں اس کی بیشمار مصلحتیں ہیں جن کا احصاکون کرسکتا ہے۔
قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا…اِنَّا اَنْزَلْنَاُہ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ… کہ ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں اتارا… اور دوسری جگہ فرمایا شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ… کہ قرآن رمضان کے مہینہ میں اتارا… اس سے اشارہ ملتا ہے کہ شب قدر رمضان کی راتوں میں سے کوئی رات تھی (معارف الحدیث)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ساتھ شفقت ورحمت
بخاری شریف کی روایت ہے حضرت عبادہ بن صامت ؓ فرماتے ہیں۔
خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُخْبِرَنَا بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی اطلاع دینے کے لئے باہر تشریف لائے… آپؐ کو پہلے اس کی تعیین بذریعہ خواب بتلادی گئی تھی…حدیث میں ہے …اُرِیْتُ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃِ ثُمَّ اُنْسِیْتُہَا … مجھے یہ بات خواب میں بتلا دی گئی تھی پھر مجھے بھلا دیا گیا۔(مشکوۃ)
تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر بتلانے کے لئے گھر سے باہر نکلے