لیلۃ القدر کی دوسری وجہ تسمیہ
قدر کے دوسرے معنی تقدیر وحکم کے بھی آتے ہیں، اس معنی کے اعتبار سے اس رات کو لیلۃ القدر اس لئے کہتے ہیں کہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لئے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہوا ہے، اس کے سال بھر کے یعنی رمضان سے رمضان تک کے تقدیری امور متعلقہ فرشتوں کے حوالہ کئے جاتے ہیں۔
اس میں ہرانسان کی عمر- موت-رزق اور بارش وغیرہ کی مقداریں متعلقہ فرشتوں کو لکھواکرحوالہ کی جاتی ہے، عمر کتنی؟ موت کب؟ روزی کتنی؟ بارش کتنی ہوگی؟ اس سال کون حج کرے گا؟ وغیرہ امور کی فائلیں فرشتوں کو سونپی جاتی ہیں۔
اور وہ بڑے فرشتے جن کو تقدیر وتنفیذ کے امور سونپے جاتے ہیں وہ بقول حضرت ابن عباسؓ کے چار فرشتے ہیں، اسرافیل، میکائیل، عزرائیل اور جبرئیل علیہم السلام (ایضاً بحوالہ قرطبی)
رہایہ سوال کہ سال بھر کے فیصلے تو شب برأت میں ہوتے ہیں، یہاں شب قدر میں بتایا جارہا ہے۔سورۂ دخان میں ہے ۔اِنَّا اَنْزَلْنَاُہ فِی لَیْلَۃُ مُبَارَکَۃً اِنَّاکُنَّا مُنْذِرِیْنَ۔ فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ۔اَمْراً مِنْ عِنْدِنَا۔… اس میں صراحت ہے کہ فیصلے اس رات میں ہوتے ہیں… اور لیلۃ مبارکہ سے جمہور نے شب قدر ہی مراد لی ہے …تو علماء نے اس کا جواب اور تطبیق اس طرح دی ہے کہ تجویز تو شب برأت میں ہوتی ہے اور تنفیذ شب قدر میں ہوتی ہے یعنی سال بھر کے امور کی فائلیں پاس ہوکر فرشتوں کے حوالہ تو شب برأت میں ہو جاتی ہیں۔ البتہ اس