Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

7 - 43
اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات
روزنامہ جنگ لاہور نے 11 ستمبر 2000ء کو اٹلی کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے بارے میں مختصر خبر شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس یورپی ملک کی عدالت عظمیٰ نے اپنی ایک ماتحت عدالت کے اس فیصلہ کی توثیق کر دی ہے کہ کسی عورت کا اپنے خاوند کے علاوہ دوسرے کسی مرد سے تعلق رکھنا جرم نہیں ہے البتہ اسے رات کو بہرحال اپنے خاوند کے پاس ہونا چاہیے۔ تعلق کی نوعیت کی وضاحت نہ ہوتی تو بات کسی حد تک گول ہو سکتی تھی لیکن خبر میں ’’جنسی تعلق‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے، اس لیے یہ سمجھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ مغربی ممالک نے جائز و ناجائز کے ہر قسم کے فرق کو ختم کرتے ہوئے اباحیت مطلقہ (فری سوسائٹی) کو آخری انتہاء تک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ نام نہاد شخصی حقوق کے اس فلسفہ کو وہ پوری دنیا سے تسلیم کرانے پر بھی ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ زنا دنیا کے تمام مذاہب میں حرام ہے اور کسی مذہب اور فلسفۂ اخلاق نے اس فعل قبیح کی اجازت نہیں دی۔ لیکن آج کا مغربی فلسفہ اس فرق کو مٹا دینے پر تل گیا ہے جس کا اظہار اٹلی کی سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے سے واضح طور پر ہو رہا ہے۔
اٹلی بنیادی طور پر مسیحی ملت سے تعلق رکھنے والا ملک ہے بلکہ مسیحیت کے مذہبی مراکز میں شمار ہوتا ہے، اس لیے ہم اس موقع پر بائبل کی ان تعلیمات کا حوالہ دینا چاہیں گے جن میں زنا کی شرعی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اس حقیقت کا ادراک کر سکیں کہ مغرب نفسِ مذہب کی دشمنی اور اسے ختم کر دینے کے جنون میں کس حد تک آگے بڑھ گیا ہے۔ بائبل کے عہد نامہ قدیم کی کتاب خروج باب 20 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان دس احکام کا ذکر ہے جو ان پر اللہ رب العزت کی طرف سے نازل ہوئے تھے اور یہ یہودی مذہب کے بنیادی دس احکام کہلاتے ہیں۔ یہ احکام مندرجہ ذیل ہیں:
1- میرے ساتھ غیر معبودوں کو نہ ماننا اور ان کی عبادت نہ کرنا یعنی شرک نہ کرنا۔
2- بت اور مورتیاں بنا کر ان کی عبادت نہ کرنا۔
3- خدا کا نام بے مقصد نہ لینا۔
4- سبت (ہفتہ) کے دن کو پاک ماننا اور اس دن عبادت کے سوا کوئی کام نہ کرنا۔
5- ماں  باپ کی عزت کرنا۔
6- خون نہ کرنا یعنی کسی کو قتل نہ کرنا۔
7- زنا  نہ کرنا۔
8-چوری نہ کرنا۔
9-پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔
1-پڑوسی کے گھر، بیوی، غلام، لونڈی یا کسی اور چیز کی لالچ نہ کرنا۔
جبکہ بائبل کے عہد نامہ جدید میں، جو انجیل اور اس کی تشریحات پر مشتمل ہے، انجیل مرقس باب 10 کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی ان تعلیمات کو دہراتے ہوئے قتل، زنا، چوری، جھوٹی گواہی، فریب کاری، اور ماں باپ کی عزت کرنے کے بارے میں یہی ہدایات دی ہیں۔ اور اسی انجیل کے باب 17 میں کسی عورت پر بری نظر ڈالنے کو بھی زنا کے ساتھ شمار کیا گیا ہے۔
زنا کی شرعی سزا کے بارے میں بائبل کی کتاب استثناء باب 22 اور احبار باب 20 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ زانی مرد اور زانیہ عورت کی سزا موت ہے اور یہ سنگسار کی صورت میں دی جائے گی۔ اسی طرح موجودہ مسیحیت کے بانی اور مسیحی علماء کے نزدیک اناجیل کے سب سے بڑے شارح سینٹ پال (پولس) نے رومیوں اور کرنتھیوں کے نام اپنے خط میں، جو بائبل کے عہد نامہ جدید میں موجود ہیں، زنا سے گریز کو شریعت سے وفاداری کی کسوٹی قرر دیا ہے اور کہا ہے کہ زنا کرنے والے خدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہو سکتے۔ کرنتھیوں کے نام سینٹ پال کے اسی خط کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے ایک شارح پادری جے جے لوکس اپنی کتاب ’’کرنتھیوں کے نام پولس کے پہلے خط کی تفسیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’حرام کاری یا زنا کاری ایک بڑا بھاری گناہ ہے، اس سے مسیحی مسیح سے جدا ہو جاتا ہے اور جو یگانگت مسیح سے وہ رکھتا ہے سو جاتی رہتی ہے۔ اس گناہ کے برابر مسیحی کے لیے کوئی دوسرا گناہ نہیں۔ اس لیے پولس کرنتھی مسیحیوں کو آگاہ کرتا ہے کہ حرام کاری مسیح سے جدا کرتی ہے تاکہ وہ لوگ اس گناہ کی حقیقت اور برائی کو پہچان کر اس سے نفرت کریں۔‘‘
یہاں ایک بات کی وضاحت شاید نامناسب نہ ہو کہ بائبل اور اس کی مذکورہ تفسیر کے یہ حوالہ جات کسی بہت زیادہ پرانے نسخہ سے نہیں بلکہ اردو زبان میں شائع ہونے والے ان نسخوں سے لیے گئے ہیں جو ’’پنجاب مذہبی بک سوسائٹی انارکلی لاہور‘‘ نے شائع کیے ہیں اور اب بھی مسیحی حلقوں میں متداول ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی طور پر مسیحی تعلیمات میں اب بھی زنا کی وہی قباحت اور سنگینی مسلّم ہے جو تورات میں بیان کی گئی تھی۔ اور جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ وضاحت اور صراحت کے ساتھ قرآن کریم کی آیات اور ان کی تشریحات کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش فرمایا ہے۔ مگر مغرب کی حکومتیں، عدالتیں، اسمبلیاں، اور ان کی سرپرستی میں چلنے والے انسانی حقوق کے نام نہاد ادارے تورات، انجیل اور قرآن کریم کی ان مشترکہ تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بدکاری اور زنا کی ہر ممکن صورت کو رواج دینے اور اسے قانونی و عدالتی تحفظ فراہم کرنے کی راہ پر ایک عرصہ سے گامزن ہیں۔ حتیٰ کہ برطانیہ سمیت متعدد مغربی ممالک کی اسمبلیوں اور عدالتوں میں شادی کے بغیر مرد اور عورت کے اکٹھے رہنے کو ان کا حق قرار دینے اور مرد کی مرد کے ساتھ شادی اور دونوں کو بطور میاں بیوی تسلیم کرنے کے عدالتی فیصلوں کے بعد اب اٹلی کی سپریم کورٹ کی طرف سے عورت کو خاوند کے علاوہ دوسرے مردوں سے تعلق قائم کرنے کی قانونی اجازت فراہم کرنے سے زنا، بدکاری اور حرام کاری کی کوئی ایسی شکل باقی نہیں رہ گئی جسے قانونی طور پر نام نہاد ’’انسانی حقوق‘‘ کی فہرست میں شامل نہ کر لیا گیا ہو۔
یہ صورتحال صرف مسلمان علماء کے لیے نہیں بلکہ مسیحیت کے سنجیدہ علماء اور مذہبی دانشوروں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ راقم الحروف پاکستان، برطانیہ اور امریکہ کے متعدد سنجیدہ مسیحی مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کر کے انہیں حالات کی اس سنگینی کی طرف توجہ دلا چکا ہے اور ان سے یہ عرض کر چکا ہے کہ مغربی سیکولرازم کی یہ جنگ صرف اسلام کے خلاف نہیں بلکہ مسیحیت کے خلاف بھی ہے۔ لیکن مسیحی رہنما عالمی سیکولر اداروں کے پھیلائے ہوئے جال سے باہر نکلنے کے لیے ابھی تک ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ان سے وہی گزارش کرنے کو جی چاہتا ہے جو حضرت لوط علیہ السلام کے پاس خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آنے والے فرشتوں کو دیکھ کر جمع ہو جانے والے بدکاروں کی یلغار پر حضرت لوط علیہ السلام نے کہی تھی کہ الیس منکم رجل رشید؟
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ہفت روزہ الہلال، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۲۲ ستمبر ۲۰۰۰ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter