Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

35 - 43
مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی
روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں 7 مئی کو شائع ہونے والی ایک دلچسپ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے سرکاری اجتماعات میں مذہبی دعا مانگنے کو درست تسلیم کیا ہے اور عیسائی طریقے پر دعا مانگنے کے خلاف ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق نیویارک ریاست کے ٹاؤن ’’گویس‘‘ کی ٹاؤن کونسل کے اجلاسوں میں عیسائی طریقے کے مطابق دعا مانگے جانے کے خلاف دو خواتین نے عدالت میں دعویٰ دائر کیا تو وفاقی اپیل کورٹ نے ان کے حق میں یہ لکھ کر فیصلہ صادر کر دیا کہ ٹاؤن کونسل کے اجلاس میں عیسائی عقیدے کے مطابق دعا مانگنے کا طریقہ در اصل اس کے مذہبی نقطہ نظر کی توثیق کرتا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے 9 میں سے 5 ججوں نے اکثریتی فیصلہ صادر کر کے اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے ٹاؤن کونسل کے اجلاسوں میں عیسائی طریقے کے مطابق دعا مانگنے کو درست عمل قرار دے دیا ہے۔ البتہ چار ججوں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا ہے۔ مزید دلچسپی کی بات یہ ہے کہ عیسائی طریقے پر دعا مانگنے کی اجازت دینے والے پانچوں جج عیسائی ہیں، جبکہ اختلاف کرنے والے چاروں جج یہودی ہیں۔ مگر اکثریتی فیصلہ ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ نافذ ہوگیا ہے جس سے ریاستی اسمبلیوں کی طرح ٹاؤن کونسلوں کو بھی یہ حق مل گیا ہے کہ وہ کسی ایک مذہب کے مطابق دعا کے ساتھ اپنے اجلاس کا آغاز کر سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے 9 ججوں نے اس فیصلہ میں یہ بات متفقہ طور پر لکھی ہے کہ ’’سرکاری اداروں کو مذہب سے آزاد علاقے قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘ مگر اکثریتی فیصلہ صادر کرنے والے ججوں کا اس کے ساتھ یہ بھی کہنا ہے کہ:
’’رسمی دعا مانگنے کی روایت امریکہ کے قیام کے وقت سے جاری ہے جو اس امر کا اعتراف ہے کہ امریکی اپنے وجود کو حکومت کی اتھارٹی سے کہیں زیادہ بلند اپنے نظریات کے تابع سمجھتے ہیں‘‘۔
یہ رپورٹ پڑھ کر مجھے چند سال قبل واشنگٹن ڈی سی کے نواح میں واقع ایک دینی مرکز ’’دارالہدیٰ‘‘ کی لائبریری میں ہونے والی ایک گفتگو یاد آگئی جس میں چند امریکی دوستوں نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ امریکی معاشرہ میں مذہب کی طرف واپسی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور ہم اس کے بارے میں یہ سوچ رہے ہیں کہ مذہب معاشرے میں دوبارہ اثر و نفوذ کے بعد کہیں سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں دخل اندازی تو شروع نہیں کر دے گا؟ انہوں نے اس کے بارے میں میرا نقطہ نظر دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ اگر تو وہ فی الواقع مذہب ہے تو ضرور کرے گا۔ اس لیے کہ مذہب صرف فرد کی راہ نمائی نہیں کرتا بلکہ سوسائٹی کا راہ نما بھی ہوتا ہے۔ اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ نسل انسانی کی راہ نمائی کے لیے نازل ہونے والی آسمانی تعلیمات میں فرد، خاندان اور سوسائٹی تینوں کے لیے راہ نمائی کا سامان موجود ہے، اور تینوں اس راہ نمائی کے محتاج ہیں۔
اب سے تین سو سال قبل یورپی معاشرے میں مذہب کے نام پر ہونے والے مظالم اور بادشاہت اور جاگیرداری کے جبر کو مذہب کے نام پر فراہم کیے جانے والے جواز کے رد عمل میں مذہب کی حکمرانی سے بغاوت کی جو تحریک شروع ہوئی تھی اور جس نے انقلاب فرانس کے بعد ایک باقاعدہ فلسفہ و نظام کی شکل اختیار کر لی تھی، اس کی بنیاد مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی پر تھی جس نے آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں لے لیا۔ حتیٰ کہ وہ دنیا کا رائج الوقت سکہ بن گیا۔ لیکن چونکہ مذہب انسانی فطرت کا حصہ ہے اور انسان زندگی کے بیشتر معاملات میں آسمانی تعلیمات کی راہ نمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہے اس لیے مذہب کے معاشرتی کردار سے انحراف کی یہ روایت کم و بیش دو صدیوں تک انسانی معاشرے پر حکمرانی کے بعد اب واپسی کے راستے تلاش کر رہی ہے۔ اور امریکی سپریم کورٹ تک کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ سرکاری اداروں کو مذہب سے آزاد علاقے قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ہمارے خیال میں یہ بحث اب ایک اور دلچسپ مرحلہ میں داخل ہوتی نظر آرہی ہے۔ اب تک یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ریاستی اداروں اور حکومتی اداروں میں سرے سے مذہب کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ مگر اب یہ کہا جا رہا ہے کہ سرکاری اور حکومتی اداروں کو معاشرے میں موجود مذاہب میں سے کسی ایک کی طرفداری نہیں کرنی چاہیے اور مذہبی تنازعات میں فریق کا کردار ادا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ چنانچہ امریکی سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے نکات میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے کہ مطلقاً مذہبی دعا منع نہیں ہے۔ لیکن کسی ایک مذہب کے مطابق دعا مانگنے سے اختلاف کیا گیا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے 5 ججوں نے اس اختلاف کو بھی تسلیم نہیں کیا اور کہا ہے کہ کسی ایک مذہب کے طریقے پر دعا مانگنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح یہ بات اس رخ پر مزید آگے بڑھ گئی ہے کہ ریاستی اداروں کو سوسائٹی میں موجود مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کو ترجیح دینے کا حق بھی حاصل ہوگیا ہے۔
ہم ایک عرصہ سے مغربی معاشروں میں مذہبی رجحانات کی واپسی کے عمل کو دیکھ رہے ہیں اور اس میں مسلسل پیش رفت کا مشاہدہ کرتے ہوئے زیر لب یہ بھی گنگناتے جا رہے ہیں کہ:
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
البتہ اس کشمکش کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاں مغربی معاشروں کے رجحانات کا رخ مذہبی اقدار و روایات کی طرف واپس مڑ رہا ہے اور مغرب ’’وجدانیات‘‘ کے نام سے آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کے راستے تلاش کرنے میں مصروف ہے، وہاں ہمارے مسلم معاشروں کے بہت سے دانش ور ابھی تک سوسائٹی کی اجتماعیت کو مذہبی رجحانات سے ’’نجات‘‘ دلانے کی تگ و دو میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اور جس ’’پتھر‘‘ کو بھاری سمجھ کر صرف چومنے کے بعد مغرب واپسی کے موڈ میں ہے، ہمارے ان دانش وروں نے اسی پتھر کو اٹھا لینے کے عزم کے ساتھ اس کی طرف دوڑ لگا رکھی ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
جون ۲۰۱۴ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter