Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

38 - 43
بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت
اے پی پی کی ایک خبر کے مطابق مالدیپ کے صدر عبد اللہ یامین نے ملکی معاملات میں مغربی مداخلت کی شدید مذمت کی ہے۔ مالدیپ کے پچاسویں یوم آزادی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر عبد اللہ نے ترقی یافتہ ممالک پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے جزیرے پر اپنے قوانین اور معیارات مسلط کر رکھے ہیں۔ کچھ ممالک اور عالمی ادارے مالدیپ کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تقریب میں ہمسایہ ملک سری لنکا کے صدر متھری پالا سری سینا بھی موجود تھے۔ صدر عبد اللہ نے کہا کہ مغربی ملکوں نے مالدیپ کے نظام عدل اور استحکام پر اعتراضات کیے ہیں جبکہ ہمارے مذہب، ثقافت اور روایات سے مطابقت نہ رکھنے والے نظریات کی حمایت نہ کرنے پر وہ ہماری مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی دھمکیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
مالدیپ بحر ہند میں سری لنکا کے جنوب مغرب میں واقع سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر کا ایک مجموعہ ہے جس کا سرکاری نام ’’جمہوریہ مالدیپ‘‘ ہے۔ اس نے 1965ء میں برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی۔ مجموعی رقبہ تین سو مربع کلو میٹر کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے اور آبادی تین چار لاکھ کے درمیان ہے جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ آزادی سے قبل وہاں بادشاہی نظام تھا اور بادشاہت کو برطانوی دور میں اندرونی خود مختاری حاصل تھی، جبکہ آزادی کے بعد سے مالدیپ میں صدارتی جمہوریت کا نظام قائم ہے۔ سارک تنظیم کے قیام کے دوران مالدیپ کے سابق صدر مامون عبد القیوم خاصے متحرک رہے ہیں اور مالدیپ کا دارالحکومت مالے 1990ء میں سارک تنظیم کی سربراہی کانفرنس کی میزبانی بھی کر چکا ہے۔
صدر عبد اللہ یامین نے مالدیپ کے یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترقی یافتہ اور مغربی ملکوں کی مداخلت کے بارے میں جو کچھ کہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی صرف مالدیپ تک محدود ہے۔ بلکہ دنیا کے ان تمام ملکوں کو ترقی یافتہ ملکوں سے یہی شکایت ہے جو غیر ترقی یافتہ یا غریب ہونے کی وجہ سے کسی نہ کسی حوالہ سے ان ترقی یافتہ ملکوں کے محتاج ہیں۔ اور ان کی اس احتیاج سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ثقافت، عقائد اور روایات کو نظر انداز بلکہ پامال کرتے ہوئے ان پر مغربی تہذیب و ثقافت کو مسلط کیا جا رہا ہے۔ البتہ مسلمان ممالک اور معاشرے چونکہ اپنے عقیدہ و ثقافت کے ساتھ گہری محبت اور بے لچک کمٹمنٹ رکھتے ہیں اور ان کا دین ایک زندہ و توانا مذہب کے طور پر دنیا بھر کی انسانی سوسائٹی میں موجود و متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تحفظ و بقا اور فروغ و نفاذ کے لیے پوری قوت کے ساتھ مزاحمت بھی کر رہا ہے، اس لیے اسلام اور مسلمانوں کا یہ احتجاج عالمی سطح پر محسوس ہو رہا ہے اور مغربی فلسفہ و ثقافت کی وہ یلغار جو دنیا کی تمام ثقافتوں، روایات اور عقائد کو اپنی لپیٹ میں لے لینے کے لیے گزشتہ دو صدیوں سے جاری ہے وہ عملاً اسلام اور مغرب کے درمیان ثقافتی جنگ (سولائزیشن وار) کا رنگ اختیار کر چکی ہے اور دنیا کے ہر خطے میں اس کا کسی نہ کسی شکل میں اظہار ہوتا رہتا ہے۔
مسلم ممالک کے حکمران تو عموماً اس سلسلہ میں خاموش ہی رہتے ہیں مگر مسلم معاشروں کی دینی و فکری قیادتوں کی صدائے احتجاج ہر سطح پر بلند ہو رہی ہے اور دنیائے اسلام کے سبھی دینی حلقے اور ادارے تمام تر باہمی اختلافات اور تنوع کے باوجود اپنے عقائد اور تہذیبی روایات بالخصوص خاندانی نظام کے تحفظ و بقا کے لیے یک آواز ہیں۔ اس وقت معروضی صورت حال یہ ہے کہ اس فکری، تہذیبی اور ثقافتی یلغار کو اقوام متحدہ سمیت بیشتر عالمی اداروں کی پشت پناہی اور تعاون حاصل ہے۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت منقار زیر پر ہے، اسلامی سربراہی کانفرنس کی تنظیم مسلسل کومے میں ہے، مگر دینی و فکری قیادتیں بہرحال حرکت میں ہیں اور کچھ نہ کچھ کر رہی ہیں۔
اس فکری اور تہذیبی کشمکش کا گزشتہ دو صدیوں کا تناظر دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگر بات صرف ظاہری اسباب کی ہوتی اور اسباب و وسائل پر ہی اس کا انحصار ہوتا تو اسلامی تہذیب و ثقافت خدا نخواستہ کب کی دم توڑ چکی ہوتی اور مسلم معاشرے بالخصوص ان کا خاندانی نظام مکمل طور پر مغربی ثقافت کے رنگ میں رنگا جا چکا ہوتا۔ مگر اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور قرآن و سنت کی تعلیمات صرف لائبریریوں کی زینت نہیں بلکہ ان کے پڑھنے پڑھانے اور ان پر روز مرہ زندگی میں عمل کا سلسلہ بھی ہر طرح کی کمزوریوں اور خرابیوں کے باوجود ہر دائرے میں اور ہر سطح پر قائم و جاری ہے۔ اس کی ایک جھلک رمضان المبارک میں قرآن کریم کی پوری دنیا میں اہتمام کے ساتھ تلاوت و قراء ت ، اور حج کے دوران دنیا بھر کے مسلمانوں کی حرمین شریفین میں والہانہ حاضری اور عقیدت و محبت کے گہرے جذبات کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس لیے مغرب کی تہذیبی یلغار کو مسلم معاشروں میں بالآخر پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس پر مغربی قیادت کی تلملاہٹ اب دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے، وما تخفی صدورھم اکبر۔
ماضی قریب میں ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے، جو اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے سربراہ بھی رہے ہیں، عالمی سطح پر مغرب کی فکری و تہذیبی دھاندلیوں کے خلاف کئی بار آواز بلند کی۔ اور وہ مسلم حکمرانوں کو اس سلسلہ میں سنجیدہ توجہ کے لیے تیار کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر ان کی آواز صدا بصحراء ثابت ہوئی اور مسلم حکمرانوں کی مجموعی حیثیت کو ’’کومے‘‘ سے نکالنے میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اب غالباً دنیا کے سب سے چھوٹے مسلم ملک مالدیپ کے صدر نے صدائے احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رکھنے کی جرأت کی ہے جس پر وہ ہم سب کے شکریہ اور تحسین کے مستحق ہیں۔ مگر جب تک مسلم ممالک کی اعلیٰ سطحی قیادتیں مہاتیر محمد اور عبد اللہ یامین کے اس درد و کرب کو محسوس نہیں کرتیں اور اس کا مداوا کرنے کے لیے سنجیدگی اختیار نہیں کرتیں تب تک صورت حال میں کسی بنیادی تبدیلی کی بظاہر کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ البتہ صدر عبد اللہ یامین کی اس جرأت رندانہ پر انہیں سلام عقیدت پیش کرنے کو جی چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۹ جولائی ۲۰۱۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter