Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

2 - 43
نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے اور سنت سے اعراض کرنے والوں سے لاتعلقی کا اظہار فرمایا ہے۔ نکاح انسانی فطرت کے تقاضوں میں سے ہے اور نسل انسانی کی نشوونما اور ان کی معاشرت کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے جب بعض صحابہؓ نے زندگی بھر شادی نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تو جناب نبی اکرمؐ اس بات پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ’’نکاح میری اور انبیاء کرامؑ کی سنت ہے‘‘۔ اسی طرح جناب رسول اللہؐ نے شادی کو ایک شرعی تقاضہ قرار دے کر نہ صرف یہ کہ اس سے بلاوجہ گریز کو پسند نہیں کیا بلکہ نکاح کے بعد اسے عمر بھر نبھانے کی تلقین فرماتے ہوئے طلاق کو ناپسندیدہ ترین چیز قرار دیا کہ اسے انتہائی مجبوری کی صورت میں ہی اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ بعض احادیث میں آنحضرتؐ نے عورت پر مال خرچ کرنے حتیٰ کہ اس کے منہ میں لقمہ ڈالنے کو خاوند کے لیے رضائے خداوندی کا ذریعہ بتایا ہے جبکہ عورت کے لیے خاوند کی اطاعت کو جنت کا راستہ ارشاد فرمایا ہے۔ یوں نکاح اسلام میں ایک مذہبی فریضے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جسے روحانی تقدس حاصل ہے اور وہ انسانی معاشرہ میں خاندان کے یونٹ اور اکائی کی مستحکم بنیاد ہے۔
آج ایک طرف مسلمان معاشرے کا خاندانی سسٹم تمام تر کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود بھی دنیا بھر کی توجہات کا مرکز ہے۔ اور دوسری طرف خاندانی سسٹم سے نجات کے خواہشمند اپنی راہ کا سب سے بڑا پتھر سمجھتے ہوئے اسے ختم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ جبکہ ’’فری سوسائٹی‘‘ کی بلندیوں کو چھو کر واپسی کی راہ تلاش کرنے والے لوگ مسلم معاشرہ کے خاندانی نظام کو رشک اور امید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
مغرب نے جب نکاح کو مذہبی تقدس اور تحفظ سے الگ کر کے محض ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ قرار دیا تو اس وقت اسے نتائج کا اندازہ نہ ہو سکا۔ آج جب یہ سوشل کنٹریکٹ یا برابری کا معاہدہ مغرب کو خاندانی زندگی کے تصور اور رشتوں کے تقدس سے کلی طور پر محروم کر چکا ہے تو وہی مغرب اب متبادل راہوں کی تلاش میں ہے۔ گزشتہ دنوں خبر رساں ایجنسی رائٹر نے میکسیکو کے بارے میں ایک خبر دی ہے کہ وہاں طلاق کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور نکاح کے بندھن کو مضبوط کرنے کے لیے اب کئی جوڑے ’’قانونی معاہدوں‘‘ کا سہارا لے رہے ہیں۔ خبر کے مطابق ایک جوڑے نے شادی کو عمر بھر کا بندھن بنانے کے لیے جو قانونی معاہدہ کیا ہے، اس کی تفصیلات سولہ صفحات پر مشتمل ہیں۔
خاندانی سسٹم کی تباہی اور طلاق کی شرح میں اضافہ نے مغرب کو اس حد تک پریشان کر دیا ہے کہ سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف نے اپنی کتاب ’’پرسٹرائیکا‘‘ میں اس کا رونا روتے ہوئے خاندانی نظام کی بحالی پر بے بسی کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ برطانوی وزیراعظم جان میجر Back to basics (بنیادوں کی طرف واپسی) کا نعرہ لگا کر ان عورتوں کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کی پالیسیاں وضع کر رہے ہیں جو بچوں کی پرورش کے لیے گھر میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ برطانیہ میں تو یہ محاورہ عام طور پر سننے میں آتا ہے کہ تھری ڈبلیوز (Three Ws) کا کوئی اعتبار نہیں۔ وومن، ویدر، ورک۔ یعنی بیوی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب چھوڑ کر چلی جائے، موسم کا کچھ پتہ نہیں کہ کب کیا صورت اختیار کر لے، اور ملازمت کا کوئی اعتبار نہیں کہ کس روز اچانک جواب مل جائے۔
ظاہر بات ہے کہ جب شادی محض ایک سوشل کنٹریکٹ یا برابری کا معاہدہ ہوگا اور اسے مذہب اور روحانیت کا تحفظ حاصل نہیں ہوگا تو دونوں شراکت داروں میں سے جس کا جب جی چاہے چھوڑ دے۔ یہ تو دین اسلام ہے جو شادی کو روحانی رشتہ قرار دیتا ہے، طلاق کو ناپسندیدہ بلکہ شیطانی عمل کہتا ہے، میاں بیوی کی محبت کو خدا کی رضا کی علامت بتاتا ہے، بیوی بچوں کو کما کر کھلانے اور ان پر خرچ کرنے کو صدقہ اور اجر و ثواب کا باعث قرار دیتا ہے، اور خاوند کی اطاعت کو بیوی کے لیے جنت کے حصول کا ذریعہ بیان کرتا ہے۔ الغرض انسانی معاشرہ آج بھی شادی کو محض ایک سوشل کنٹریکٹ سمجھنے کی بجائے مذہبی فریضہ اور انبیاء کرامؑ کی سنت کے طور پر اختیار کر لے تو اسے ان تمام مصیبتوں سے نجات مل سکتی ہے جو خاندانی انارکی کی صورت میں اس پر مسلط ہو چکی ہیں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ وفاق، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۵ جولائی ۱۹۹۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter