Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

30 - 43
امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی
امریکی فوج کے اسکولوں میں اسلام کے بارے میں پڑھائے جانے والے ایک نصاب پر ان دنوں بحث جاری ہے۔اخباری رپورٹوں کے مطابق خود امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اس نصاب کو قابل اعتراض قرار دیا ہے جبکہ پینٹاگون نے تصدیق کی ہے کہ مذکورہ کورس کے بارے میں ان کی ویب سائٹ پر موجودہ نصاب اصلی ہے۔ ایک برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کسی امریکی فوجی کی شکایت سامنے آنے پر جنرل مارٹن نے اس کورس کا نوٹس لیا ہے اور اسے قابل اعتراض اور دوسرے مذاہب کے احترام کے بارے میں امریکی اقدار کے منافی قرار دے کر اس کی انکوائری کا حکم دیا ہے۔ مذکورہ کورس کے حوالے سے ان رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس کورس کے ذریعے امریکی فوجیوں سے کہا جاتا ہے کہ اسلام میں اعتدال پسندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ ان کے مذہب کو اپنا دشمن تصور کریں۔ کورس میں یہ بھی درج ہے کہ امریکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہے اور یہ ممکن ہے کہ امریکہ مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ کو (نعوذ باللہ) جوہری ہتھیاروں کے ذریعے تباہ کر دے۔
جنرل مارٹن ڈیمپسی کی طرف سے انکوائری کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے، اس کے بارے میں ہم کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کے غم وغصہ اور جذبات کو کم کرنے کی حکمت عملی کے تحت یقیناً لیپا پوتی سے کام لیا جائے گا اور وہی کچھ ہوگا جو اس قسم کی رپورٹوں میں عام طو رپر ہوا کرتا ہے۔ البتہ اس کورس کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کرنے کی ضرورت بہرحال محسوس ہو رہی ہے۔
ہمیں اس کورس اور اس کے امریکی فوج کے اسکولوں میں پڑھائے جانے کے اس انکشاف پر کوئی تعجب نہیں ہوا، اس لیے کہ یہ نہ تو پہلی بار ہو رہا ہے اور نہ ہی امریکی جنرل کی طرف سے انکوائری کے آرڈر پر یہ سلسلہ رک جائے گا۔ یہ تو مغرب کی صدیوں سے چلی آنے والی پالیسی ہے جس کے سیکڑوں مظاہر ومشاہدات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں اور مغرب کی تعلیم گاہوں میں پورے اہتمام کے ساتھ اس بات کی کوشش ہوتی آ رہی ہے کہ دنیا کے سامنے، خاص طو رپر مغربی دنیا کے سامنے اسلام او رمسلمانوں کی ایسی تصویر پیش کی جائے جو نفرت او رکراہت کا باعث بنے اور اسے دیکھنے والوں کے ذہن اسلام کے بارے میں کوئی مثبت رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں۔
چند سال قبل جب سربیا اور بوسنیا کا تنازع عالمی سطح پر زیر بحث تھا، ان دنوں کی بات ہے کہ برطانیہ کے شہر لیسٹر میں محترم پروفیسر خورشید احمد کے ادارے ’’اسلامک فاؤنڈیشن‘‘ نے اس سلسلے میں ایک سیمینار منعقد کیا جس میں برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر جم مارشل نے بھی شرکت کی۔ میں ان دنوں وہیں تھا اور اس سیمینار میں شریک ہوا تھا۔ جم مارشل نے اس موقع پر بہت فکر انگیز گفتگو کی جس میں انھوں نے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی دنیا کے ذہنوں میں جوکنفیوژن پایا جاتا ہے، اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ کنفیوژن یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک تصویر وہ ہے جو ان معلومات سے قائم ہوتی ہے جو ہمارے بڑے نسل در نسل ہمیں روایتی انداز میں فراہم کرتے آ رہے ہیں اور یہ بڑی خوف ناک تصویر ہے۔ دوسری تصویر وہ ہے جو تاریخ کے مطالعہ اور مستندمواد تک رسائی سے ہمارے ذہنوں میں تشکیل پاتی ہے۔ یہ پہلی تصویر سے یکسر مختلف ہے، مگر آج کے ان مسلمانوں کو دیکھ کر جو ہمارے ساتھ رہتے ہیں، جو تصویر ذہنوں میں بنتی ہے، وہ ان دونوں تصویروں سے مختلف ہے۔ جم مارشل نے اس کنفیوژن کاذکر کرتے ہوئے مسلمان دانش وروں سے کہا کہ وہ اس کنفیوژن کو دور کرنے کی کوشش کریں اور یہ کہ اگر اس کنفیوژن کو دور کیا جا سکے تو مغربی دنیا اسلام کی بات سننے کے لیے آج بھی تیا رہے۔
جم مارشل کی اس تقریر کا حوالہ ہم نے ا س لیے دیا کہ مغربی خاندانوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو تاثرات اور احساسات نسل در نسل چلے آ رہے ہیں، وہ تاریخ کے مطالعہ اور موجودہ مسلمانوں کو دیکھ کر قائم ہونے والے احساسات اور تاثرات سے بالکل مختلف ہیں اور یہی تاثرات امریکی فوج کے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے اس کورس کی بنیاد ہیں، اس لیے ہمیں اس پر افسوس ضرور ہے، مگر تعجب بالکل نہیں ہے، اس لیے کہ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے اور آج بھی مذہب سے لاتعلقی کے ٹائٹل اور سیکولرزم کے عنوان کے باوجود مغربی حکمرانوں کی مجبوری ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی کوئی ایسی تصویر دنیا کے سامنے نہ آنے دیں جو اسلام کے بارے میں مثبت سوچ پیدا ہونے کا ذریعہ بن سکے۔
کچھ عرصہ قبل جب پاکستان کے دینی مدارس کے خلاف مغربی دنیا کی پروپیگنڈا مہم عروج پر تھی، ان دنوں ایک دستاویزی فلم کا بہت شہرہ ہوا جو مختلف مغربی ممالک کے مقتدر حلقوں کو بطور خاص اہتمام کے ساتھ دکھائی گئی۔ میں نے بھی وہ فلم ان دنوں دیکھی تھی۔ اس میں پاکستان کے کسی بھی مکتب فکر کے کسی معیاری دینی مدرسے کا تذکرہ موجود نہیں تھا جو کم وبیش ملک کے ہر بڑے شہر میں پائے جاتے ہیں، بلکہ کسی دور دراز دیہات کے ایک مدرسے کو فوکس کیا گیا تھا جو کچھ بعید نہیں کہ اس مقصد کے لیے خاص طو رپر تیار کیا گیا ہو اور دینی مدرسے کے اندرونی ماحول کو انتہائی مکروہ انداز میں پیش کر کے نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ مجھے یہ ’’دستاویزی فلم‘‘ دیکھنے کا موقع لندن میں ملا تھا اور فلم دکھانے کے بعد مجھ سے میرے تاثرات کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے عرض کیا تھا کہ میں بیسیوں نہیں بلکہ سیکڑوں ایسے مدارس کی نشان دہی کر سکتا ہوں جن میں سے ایک کو بھی اس دستاویزی فلم کا حصہ بنا لیا جائے تو وہ سارا تاثر خاک میں مل جاتا ہے جو اس فلم کی تیاری اور تشہیر کا مقصد دکھائی دیتا ہے۔
امریکی فوج کے اسکولوں میں مبینہ طور پر پڑھائے جانے والے اس کورس پر مختلف حلقوں کی طرف سے جو احتجاج جاری ہے، وہ ملی حمیت کا تقاضا ہے اور ہر مسلمان کو اپنے اپنے انداز میں اس احتجاج میں ضرور شریک ہونا چاہیے، لیکن اس سے کہیں زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے ابلاغ کے وسیع تر ذرائع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات اور آج کے حالات میں قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے احکام وقوانین کی تطبیق کی قابل عمل صورتوں کو اجاگر کیا جائے۔ اپنی بات اپنے انداز میں کہنے اور اسے دنیا کے ہر کونے میں پہنچانے کی جو سہولتیں آج میسر ہیں، اس سے پہلے کبھی وہ ہماری دسترس میں نہیں تھیں، اس لیے مغرب کی علمی وفکری دھاندلی کے خلاف احتجاج اور غم وغصہ کے اظہار کے ساتھ ساتھ ہمارے علمی اداروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ آج کے عالمی حالات کے تناظر میں اور مستقبل کی فکری وعلمی ضروریات کے پیش نظر سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
جون ۲۰۱۲ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter