Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

43 - 43
اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں
27 نومبر کو لاہور کے ایک عوامی ہال میں حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد کے حوالہ سے سیمینار منعقد ہوا جس کا اہتمام خانقاہ سراجیہ نقشبندیہ مجددیہ لاہور کے خدام اور روزنامہ جنگ کے مذہبی ونگ نے باہمی اشتراک سے کیا تھا۔ خانقاہ سراجیہ مجددیہ کندیاں شریف کے سجادہ نشین مولانا خواجہ خلیل احمد نے اس کی صدارت کی اور علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی جبکہ خطاب کرنے والوں میں مولانا محمد خان شیرانی، مولانا حافظ فضل الرحیم، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، پروفیسر حافظ سعد اللہ، جناب اوریا مقبول جان، الحاج سید سلمان گیلانی، مولانا اللہ وسایا اور دیگر سرکردہ حضرات شامل تھے۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ امام ربانی حضرت مجدد الفؒ ثانی کی حیات د خدمات کے بارے میں ممتاز ارباب فکر و دانش آج کی اس محفل میں اظہار خیال کر رہے ہیں جو حضرت مجددؒ کی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کے حوالہ سے ہوگی، میں ان میں سے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت مجددؒ نے اکبر بادشاہ کے خودساختہ ’’دین الٰہی‘‘ کو اپنی مخلصانہ جدوجہد کے ذریعہ ناکام بنا دیا تھا۔ وہ دین الٰہی کیا تھا اور اس کے مقابلہ میں حضرت مجددؒ کی جدوجہد کیا تھی؟ اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کے خدوخال اور حدود اربعہ کے بارے میں تاریخ بہت کچھ بتاتی ہے جسے میں چار دائروں یا مراحل میں تقسیم کروں گا۔
1- اس نئے دین میں قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کی اس اتھارٹی اور ڈھانچے کو مسترد کر دیا گیا تھا جو ایک ہزار سال سے مسلمہ طور پر چلی آرہی تھی۔ اکبر بادشاہ کو اولی الامر اور مجتہد مطلق کا خطاب دے کر یہ اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ قرآن و سنت کی جو تعبیر و تشریح کرنا چاہے کر سکتا ہے، اور اب وہی اس معاملہ میں اتھارٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کے لیے اہل علم اور اہل فقہ کی بجائے اقتدار کی قوت کو معیار قرار دے دیا گیا تھا اور اسی بنیاد پر اکبر بادشاہ نے ’’دین الٰہی‘‘ تشکیل دیا تھا۔
2- اسلامی عقائد کے مسلمہ دائرے کو توڑ کر مختلف مذاہب کے عقائد کو اس میں شامل کر لیا گیا تھا جس کے تحت اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ سورج کو سجدہ، بادشاہ کو سجدہ، اور ہندو مذہب سمیت دوسرے مذاہب کے بعض عقائد و اعمال کو اس کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔
3- حلال و حرام کا مسلمہ دائرہ ختم کر دیا گیا تھا اور شراب، زنا، سود وغیرہ کو حلال و جائز امور میں شامل کر لیا گیا تھا۔
4- علماء کرام، فقہاء عظام اور اہل دین کی صرف نفی نہیں کی گئی تھی بلکہ ان کی توہین، استہزاء، کردار کشی اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے کو بھی دین الٰہی کا اہم حصہ بنایا گیا تھا وغیر ذٰلک۔
یہ وہ چند بنیادی تبدیلیاں ہیں جو ’’دین الٰہی‘‘ کے عنوان سے مسلمان معاشرہ میں متعارف کرائی گئی تھیں اور اس کے فروغ کے لیے اکبر بادشاہ کی حکومت و طاقت ہی سب سے بڑا ذریعہ تھی۔ حضرت مجدد الفؒ ثانی نے الحاد کی اس یلغار کا مقابلہ تین دائروں میں کیا۔
عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے حضرات صوفیائے کرامؒ کی طرز پر اصلاح و ارشاد، دینی احکام کی تلقین اور قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کرنے کی محنت کی۔علماء کرام اور اہل دانش میں دین کے علوم و معارف کے ساتھ ساتھ انہیں غلط عقائد و رسوم اور فتنوں سے مسلسل آگاہ کرنے کی جدوجہد کی اور علمی حلقوں میں بیداری قائم رکھنے کو اپنا ہدف قرار دیا۔حکمران طبقہ کے دائرہ میں ان کا حریف اور ان کے خلاف فریق بننے کی بجائے ان کا خیرخواہ اور مصلح بننے کی حکمت عملی اختیار کی اور ان ارباب اختیار تک رسائی حاصل کرنے کی محنت کی جو حکمران طبقات کو نئے دین کے رنگ میں رنگے جانے سے روک سکتے تھے، انہوں نے محاذ آرئی کی بجائے بریفنگ اور لابنگ کا راستہ اختیار کیا۔ حضرت مجددؒ کو رولنگ کلاس کو یہ یقین دلانے کے لیے صبر آزما جدوجہد کرنا پڑی کہ وہ حکمرانوں کے حریف نہیں بلکہ خیرخواہ ہیں۔ اور جب وہ اس حوالہ سے اعتماد کی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر حالات بدلنے میں دیر نہیں لگی اور اکبر بادشاہ کا دین الٰہی اس کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی خود حکمران حلقوں میں اجنبی ہوتا چلا گیا۔ اسے اگر فکری محاذ پر گوریلا جنگ سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ حضرت مجدد الفؒ ثانی نے مغل حکمرانوں کی اعلیٰ کلاس کو ’’تارپیڈو‘‘ (Torpedo)کیا اور دین الٰہی کو مغل بادشاہت کی رولنگ کلاس کو گھیرے میں لینے سے روک دیا۔ یہ حضرت مجددؒ کا ہی حوصلہ اور صبر تھا کہ انہوں نے ایک بے لوث اور مخلصانہ جدوجہد کا آغاز کیا اور ہر قسم کی مشکلات برداشت کرتے ہوئے بالآخر اس میں کامیابی حاصل کر لی۔
آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں بھی آج دینی اور فکری طور پر وہی چیلنج درپیش ہے جس کا سامنا حضرت مجدد الفؒ ثانی نے کیا تھا۔
آج بھی یہ مطالبہ موجود ہے کہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد کی اتھارٹی اہل علم و فقہ کی بجائے قوت مقتدرہ کو تسلیم کیا جائے جو اُس زمانے میں بادشاہت تھی اور آج وہ حیثیت پارلیمنٹ کو حاصل ہوگئی ہے۔ میرے خیال میں اکبر بادشاہ کو اولی الامر کے طور پر ’’مجتہد مطلق‘‘ قرر دینے اور آج کی پارلیمنٹ کے لیے قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کا حق مانگنے اور اسے اتھارٹی قرار دینے میں کوئی فرق نہیں ہے۔آج بھی اتحاد بین المذاہب اور مذہبی رواداری کے نام پر اسلامی عقائد کی گرفت کو کمزور کرنے اور سب مذاہب کو برابر سطح پر صحیح تسلیم کرلینے کے حق میں بحث جاری ہے اور دوسرے مذاہب کو باطل قرار دینے کی مخالفت جاری ہے۔آج بھی حلال و حرام کے قدیمی دائروں سے انحراف کی آواز بلند کی جا رہی ہے اور بہت سے حراموں کو حلال کی فہرست میں شامل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے بلکہ عملاً شامل کر لیا گیا ہے۔آج بھی اہل دین، اہل علم و فقہ اور دین پر قائم رہنے والے طبقوں کے خلاف نفرت کی مہم جاری ہے، ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے اور نئی نسل کو ان سے کاٹنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
اس تناظر میں آج کے سیمینار کے حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اکبر بادشاہ کا دین الٰہی نئے روپ میں پھر سے مسلم سوسائٹی پر غالب آنے کی کوشش میں مصروف ہے اور اسے اقتدار اور طاقت کے بڑے مراکز کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ حضرت مجدد الفؒ ثانی کی فکر و تعلیمات اور جدوجہد کو ازسرِنو زندہ کیا جائے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اکبری دین کے اس نئے ایڈیشن کا دل جمعی کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔ میرے خیال میں ہمارے لیے حضرت مجدد الفؒ ثانی کا یہی پیغام ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۸ نومبر ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter