Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

24 - 43
امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار
روزنامہ پاکستان لاہور نے ۲۳ اپریل ۲۰۰۷ء کو لاہور میں ’’اسلام اور مغرب کے درپیش چیلنجز اور مواقع‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار کی رپورٹ خبر کے طور پر شائع کی ہے جس کا اہتمام پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) نے کیا ہے اور صدارت ملک کے معروف دانش ور اور قانون دان جناب ایس ایم ظفر نے فرمائی ہے۔ سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں جسٹس (ر) خلیل الرحمن، پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری، سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد اور دیگر ارباب دانش کے علاوہ اسپین سے تشریف لانے والے دو معروف دانش پروفیسر پری ویلانووہ اور پروفیسر راحیل بیونو بھی شامل ہیں۔
سیمینار میں ہونے والی گفتگو کے اہم نکات میں اسلام اور مغرب کے مابین مبینہ طور پر پائی جانے والی غلط فہمیاں، دہشت گردی، انتہا پسندی، مذہبی اختلافات، جنگ آزادی اور دہشت گردی میں فرق، صلیبی جنگوں کا تسلسل، فلسطین وکشمیر جیسے مسائل اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کا رویہ جیسے امو رخاص طور پر قابل ذکر ہیں اور ان میں سے ہر نکتہ سنجیدہ گفتگو کا متقاضی ہے، مگر ہم سردست اس تقریب کے صدر جناب ایس ایم ظفر کے بعض ارشادات کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں جو مذکورہ اخبار میں ان الفاظ کے ساتھ رپورٹ کیے گئے ہیں:
’’ایس ایم ظفر نے کہا کہ مغرب اور اسلام میں غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں۔ اگر دونوں ایک دوسرے کی اچھی باتیں اپنا لیں تو اسلام مغرب سے جمہوریت، شہریوں کے انسانی حقوق، علم اور ٹیکنالوجی کا سبق سیکھ سکتا ہے جبکہ مغرب اسلام کے خاندانی نظام کو اپنا کر اپنے بہت سے معاشرتی مسائل دور کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان جمہوری کلچر کی طرف آئیں۔ آج میڈیا کا دور ہے مگر اسلام اس سلسلے میں بہت پیچھے ہے۔ ہمیں میڈیا سنٹر بنانے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں مسلمانوں کو درپیش مسائل حل کرنا ہوں گے جن میں فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے۔‘‘
ہم محترم ایس ایم ظفر صاحب کی اس گفتگو میں سے دو نکات پر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام اور مغرب کے درمیان مبینہ طو رپر پائی جانے والی غلط فہمیوں کا دائرہ کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ مسلمانوں کو مغرب سے کون کون سی چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہے؟
یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور ان کے مابین کشمکش کی موجودہ فضا زیادہ تر ان غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے جنھیں اگر دور کر دیا جائے تو کشمکش کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے اور مسلمان اور مغرب آپس میں قریب آ سکتے ہیں۔ بظاہر یہ بات بہت قرین قیاس اور مستقبل کے حوالے سے امید افزا لگتی ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ معروضی صورت حال اور زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی، اس لیے کہ مغرب کے بارے میں یہ تصور رکھنا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہے، خود مغرب کی ذہنی سطح، نفسیاتی ماحول اور تحلیل وتجزیہ کی استعداد وصلاحیت سے بے خبری یا اسے شک وشبہ کا شکار بنانے کے مترادف ہے کیونکہ مسلمانوں کے بارے میں تو یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہ علم وخبر کے ذرائع اور ذوق کی کمی کے باعث مغرب کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں اور تحلیل و تجزیہ، باریک بینی اور مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت کی کمزوری کی وجہ سے مغرب کے مقاصد اور عزائم کو پوری طرح نہیں سمجھ پا رہے ہیں، لیکن کیا مغرب بھی مسلمانوں کے حوالے سے اسی سطح پر ہے؟ ہمارے خیال میں اس سوال کا اثبات میں جواب دینا مشکل ہوگا۔
یہ بات ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سارے مغرب کی ذہنی سطح ایک نہیں ہے اور ہمیں یہ بات قبول کرنے میں بھی کوئی حجاب نہیں ہے کہ مغرب کے سارے طبقات اور افراد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک طرح سے نہیں سوچتے، لیکن یہ بات ہمارے نزدیک کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ مغرب میں دانش، سیاست اور اقتدار کے حوالے سے جو طبقہ ’’رولنگ کلاس‘‘ سے تعلق رکھتا ہے اور جو اس وقت عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں سے نبردآزما ہے، و ہ کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہے، بلکہ وہ سالہا سال کی نہیں بلکہ صدیوں کی علمی وفکری محنت کے ذریعے سے اس بات کا خوب اچھی طرح شعور رکھتے ہوئے کام کر رہا ہے کہ جس عالمی نظام اور گلوبل کلچر کو وہ دنیا میں مستقبل کے واحد نظام اور کلچر کے طور پر متعارف کرانے بلکہ اسے غلبہ دلانے کی کوشش کر رہا ہے، اس کی راہ میں اگر کوئی فلسفہ حیات اور ثقافتی نظام رکاوٹ بن سکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہے جسے راہ سے ہٹانے کے لیے مغرب کی رولنگ کلاس اسلام اور مسلمانوں کے اہل دین کو کردار کشی کے ذریعے سے بدنام اور جبر وتشدد کے ذریعے سے بے بس بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ اس لیے ہم اپنے ارباب دانش سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ محض ’’غلط فہمیوں‘‘ کے چکر میں اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع نہ کریں، بلکہ مغرب کی رولنگ کلاس کے اہداف، پروگرام، طریق کار اور مراحل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔
دوسری بات جناب ایس ایم ظفر کے اس ارشاد کے حوالے سے ہے کہ مسلمانوں کو مغرب سے جمہوریت، انسانی حقوق، علم اور ٹیکنالوجی سیکھنی چاہیے۔ جہاں تک جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا تعلق ہے، ہمیں محترم ظفر صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہم اس میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور دراصل اسی اجتماعی جرم او رکوتاہی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، اس لیے ہمیں ان ضروریات کی تکمیل بہرحال مغرب کی مدد سے ہی کرنی ہے جس کے لیے ہم تو اب کسی درجہ میں تیار ہیں لیکن مغرب ایک خاص حد سے آگے ہمیں اس سلسلے میں کسی قسم کا تعاون یا سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اس نے جدید علوم اور سائنس وٹیکنالوجی کے حوالے سے ہمارے گرد ایسی مضبوط ریڈ لائن کا گھیرا ڈال رکھا ہے کہ ہمارے لیے اس حصار کو توڑنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے قومی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان کا مقدمہ خود ایس ایم ظفر صاحب نے لڑا تھا، اس لیے ان سے بہتر اس معروضی حقیقت سے اور کون واقف ہو سکتا ہے کہ جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا مغرب سے اس درجہ کا سبق سیکھنا جس کی ہمیں ملی سطح پر ضرورت ہے، اب ممکن نہیں رہا چنانچہ اب یہ بات بھی ہمارے دانش وروں کی ذمہ داری میں شامل ہو گئی ہے کہ وہ امت مسلمہ کو مغرب سے سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید علوم سیکھنے کا مشورہ دیتے رہنے پر اکتفانہ کریں بلکہ کوئی متبادل راستہ بھی امت کو دکھائیں کہ مغرب نے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے معروف راستے امت مسلمہ پرچاروں طرف سے بند کر رکھے ہیں اور کوئی متبادل صورت نکالے بغیر امت مسلمہ کے لیے اب اس راستے میں آگے بڑھنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔
باقی رہی بات مغرب سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا سبق حاصل کرنے کی تو ہمیں اس باب میں محترم ظفر صاحب کے ارشاد سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ مغرب نے جمہوریت اور انسانی حقوق دونوں کا توازن جس بری طرح بگاڑ دیا ہے، اسے اسلام کے بنیادی معتقدات اور قرآن وسنت پر ایمان رکھتے ہوئے قبول کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ مغرب نے جمہوریت اور جمہور کو آسمانی تعلیمات اور وحی کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دے کر جس مادر پدر آزادی کو فروغ دیا ہے، اسلام اسے تسلیم نہیں کرتا اور اس کے ساتھ ہی مغرب نے حقوق اللہ کو نظر انداز کر کے اور انسانوں کے باہمی حقوق کو مذہبی اخلاقیات سے آزاد کر کے خالصتاً مادہ پرستی پر مبنی انسانی حقوق کا جو نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے، وہ بھی اسلام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔
ہم جمہوریت اور انسانی حقوق، دونوں کو انسانی سوسائٹی کی ناگزیر ضرورت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مسلم معاشروں اور ممالک واقوام کی تمام تر کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان دونوں اصولوں کی طرف مسلم امہ کی واپسی کو امت مسلمہ کے لیے وقت کا سب سے بڑا تقاضا تصور کرتے ہیں، لیکن یہ مغرب کے فلسفہ وفکر اور نظام وثقافت کے حوالے سے نہیں بلکہ قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے سنہری اصولوں کی روشنی میں ہوگا، اس لیے ہمارے خیال میں بہت سے مسلم دانش وروں کا یہ طرز عمل درست نہیں کہ وہ مسلمانوں کو مغرب کے جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصور کو اپنانے کا مشورہ دیتے رہیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کی روشنی میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی وضاحت کریں اور مغرب کے ساتھ ان کے تضاد کی نشان دہی کرتے ہوئے امت مسلمہ کو قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے سنہری اصولوں کی پیروی کے لیے تیار کریں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
مئی ۲۰۰۷ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter