Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

32 - 43
توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ
توہین رسالت کا مسئلہ ایک حالیہ امریکی فلم کے حوالے سے ایک بار پھر پوری دنیا میں موضوع بحث ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس سلسلہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں جو ان کے ایمان وعقیدت کا مظہر ہے اور اس حقیقت کا عالمی فورم پر ایک بار پھر بھرپور اظہار ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان کسی بھی حوالے سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا اور اس سلسلے میں دنیا کے ہر خطے کے مسلمانوں کے جذبات ایک جیسے ہیں۔
میں نے وہ فلم نہیں دیکھی، نہ دیکھنا چاہتا ہوں اور نہ ہی شاید دیکھ سکوں، اس لیے کہ ایک عام انسان کی توہین پر بھی میرے دل میں کچھ نہ کچھ کسک ضرور پیدا ہوتی ہے، کائنات کی سب سے محترم شخصیت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا منظر کیسے دیکھ سکوں گا؟ میں نے سلمان رشدی کی بدنام زمانہ تصنیف ’’شیطانی آیات‘‘ بھی چند صفحات پر نظر ڈال کر چھوڑ دی تھی کہ اس سے آگے پڑھنے کی مجھ میں سکت نہیں تھی۔
اخبارات میں اس شرمناک فلم کے ہدایت کار نکولا سبیلی نکولا کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں اس نے کہا کہ مسلمانوں میں برداشت اور حوصلہ نہیں ہے، انھیں اختلاف اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ یہ بات مغرب کے بہت سے دانش ور عرصے سے کہتے آ رہے ہیں اور آج بھی یہ بات سب سے زیادہ زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اندر اختلاف اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ میرا مغرب کے ان دانش وروں سے سوال ہے کہ اختلاف وتنقید اور اہانت وتحقیر میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اور کیا اختلاف وتنقید کے نام پر ہم سے تمسخر واستہزا اور توہین وتحقیر کا حق تو نہیں مانگا جا رہا؟ جہاں تک اختلاف اور تنقید کا تعلق ہے، اس کو مسلمانوں سے زیادہ کس نے برداشت کیا ہے؟ مغرب کے مستشرقین صدیوں سے اسلام، قرآن کریم، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی تہذیب وکلچر کے خلاف مسلسل لکھتے آ رہے ہیں اور مغرب کی یونیورسٹیوں کی لائبریریاں اس قسم کی کتابوں اور مقالات سے بھری پڑی ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ ان کا جواب مقالات اور کتابوں کی صورت میں دلائل کے ساتھ دیا ہے اور اب بھی دلیل اور متانت کے ساتھ کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دلیل اور متانت کے ساتھ ہی دیا جا رہا ہے، لیکن تمسخر واستہزا اور توہین وتحقیر کو کسی دور میں بھی برداشت نہیں کیا گیا۔ وہ آج بھی برداشت نہیں ہے اور آئندہ بھی کبھی برداشت نہیں ہوگا۔
مسلمانوں میں اختلاف اور توہین کے درمیان فرق کا شعور بحمد اللہ قائم ہے اور وہ تنقید اور استہزا کے درمیان فاصلے کو بحمد اللہ اچھی طرح سمجھتے ہیں، البتہ مغرب نے یہ فاصلے ختم کر دیے ہیں۔ انھوں نے استہزا، تمسخر، توہین، تحقیر اور تذلیل کو بھی اختلاف اور تنقید کا عنوان دے رکھا ہے اور مسلمانوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اختلاف اور تنقید کو برداشت کرنے کے عنوان سے اسلام دشمنوں کو اس بات کی کھلی آزادی دے دیں کہ وہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت مسلمانوں کی کسی بھی محترم اور مقدس شخصیت کو استہزا وتمسخر اور توہین وتحقیر کا جب چاہیں، نشانہ بناتے رہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا اور کبھی نہیں ہوگا۔ نکولا سبیلی نکولا اور اس کے ہم نوا مغربی دانش ور اور میڈیا اس حقیقت کو جتنی جلدی سمجھ لیں، ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اس کے بغیر مسلمانوں سے امن یا برداشت کے نام پر کوئی اپیل کارگر نہیں ہوگی، اس لیے کہ مسلمان کا خمیر ہی غیرت وحمیت کے مقدس پانی میں گوندھا گیا ہے۔
توہین رسالت پر مبنی امریکی فلم کے علاوہ پاکستان میں بھی رمشا مسیح کیس کے تناظر میں اس مسئلے کے مختلف پہلووں پر بحث وتمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے دو تین پہلو بہرحال ارباب فکر ودانش کی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں۔
ایک یہ کہ اس عنوان سے بین الاقوامی سیکولر لابیاں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے اور لابنگ کے لیے اس قسم کے کیسوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور خاص طور پر ورلڈ چرچ کونسل کی طرف سے آئندہ چند روز میں اس موضوع پر منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس سے قبل اس طرح کا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ اس کانفرنس کو پاکستان میں توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون کو غیر موثر بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکے۔ بین الاقوامی سیکولر لابیاں پاکستان کے اسلامی تشخص، پاکستان میں نافذ چند اسلامی احکام وقوانین اور خاص طور پر ناموس رسالت کے تحفظ اور قادیانیوں کی غیر اسلامی سرگرمیوں کی روک تھام کے قوانین کے درپے ہیں اور ان کی مسلسل کوشش ہے کہ ان قوانین کو ختم کرا دیا جائے یا کم از کم عملی طور پر غیر موثر بنا دیا جائے۔ یہ صورت حال ملک کے دینی حلقوں اور علمی مراکز کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ اس قسم کے معاملات میں وقتی دباؤ کے تحت ہم اکٹھے ہو جاتے ہیں اور احتجاجی میدان میں کچھ نہ کچھ کر بھی دیتے ہیں جس کے فوائد وقتی طو رپر مل جاتے ہیں، لیکن اس بارے میں مستقل طو رپر کوئی پروگرام ہمارے ہاں نظر نہیں آ رہا جس سے ہم عالمی سیکولر لابیوں کی اس مہم کا سنجیدگی کے ساتھ مستقل طو رپر سامنا کر سکیں اور اس کے سد باب کا کوئی معقول راستہ تلاش کر سکیں۔ اگر مسلم حکومتیں اس سلسلے میں کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو دینی قوتوں کو ہی باہمی مشاورت کے ساتھ اس کا اہتمام کر لینا چاہیے۔
دوسری طرف یہ صورت حال بھی ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم لاکھ انکار کریں، مگر توہین رسالت کی سزا کے قانون کا مبینہ طو رپر غلط استعمال اس مسئلے پر ہماری پوزیشن کو مسلسل کمزور کرتا جا رہا ہے اور مسلکی تنازعات میں توہین رسالت کے قانون کی آڑ میں ہم خود اس قانون کو غیر موثر بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔ دوسرے واقعات کو ایک طرف رکھیں، گوجرانوالہ میں تین ایسے واقعات خود میرے مشاہدے میں موجود ہیں جو ہمارے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن چکے ہیں۔
چند سال قبل گرجاکھ میں ایک مسجد کے امام صاحب قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق تلف کرنے کے لیے جلا رہے تھے کہ ان کے ایک مسلکی مخالف نے دیکھ لیا اور شور مچا کر لوگوں کو جمع کر لیا۔ مولوی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا، مقدمہ کا اندراج ہوا اور توہین قرآن کریم کے جرم پر انھیں سزا دلوانے کی مہم شروع ہو گئی۔ پولیس نے ہم سے رابطہ کیا تو خود میں نے لکھ کر دیا کہ قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو تلف کرنے کے لیے جلانے کی روایت موجود ہے اور فقہائے کرام نے بھی بعض صورتوں میں اجازت دی ہے، اس لیے اس عمل کو غیر محتاط اور ناپسندیدہ قرار دے کر اس پر سرزنش تو کی جا سکتی ہے، مگر اس پر توہین کی دفعات کا اطلاق درست نہیں ہے۔ اس پر اس غریب امام صاحب کی جان چھوٹی۔
پھر کچھ عرصہ کے بعد کھیالی میں ایک حافظ قرآن کو اسی طرح کے ایک عمل پر ان کے مخالف مسلک کے امام نے مسجد کا لاؤڈ اسپیکر کھول کر شور کر دیا اور لوگوں کو جمع کر کے اس قدر اشتعال دلایا کہ اس حافظ صاحب کو سڑک پر گھسیٹ پر تھانے لے جایا گیا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس ساری کارروائی کے بعد بات کھلی کہ یہ اس کے خلاف مسلکی عناد کی وجہ سے کی گئی تھی۔
ابھی گزشتہ سال کھوکھرکی میں توہین رسالت کا ایک واقعہ سامنے آیا اور اس میں چند مسیحی افراد کو ملوث ظاہر کر کے ان کی گرفتاری کے لیے عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ کمشنر گوجرانوالہ نے دانش مندی کی کہ فوری طور پر شہر کے سرکردہ علمائے کرام سے رابطہ کر لیا جنھوں نے بروقت مداخلت کر کے صورت حال کو کنٹرول کر لیا، ورنہ بہت کچھ ہو سکتا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ کارروائی کسی کاروباری رقابت میں چند لوگوں کو پھنسانے کے لیے کی گئی تھی، لیکن مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام نے مداخلت کر کے صورت حال کو زیادہ سنگین ہونے سے بچا لیا۔
یہ تین واقعات میرے شہر کے ہیں اور میرے چشم دید ہیں، اس لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ توہین رسالت کی سزا کے قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا، بلکہ اس قسم کے مقدمات کی چھان بین کی جائے تو گزشتہ دس سال میں درج ہونے والے مقدمات کی تعداد بیسیوں میں ہوگی، اس لیے ہمیں تحفظ ناموس رسالت کے قانون کا مکمل دفاع اور تحفظ کرتے ہوئے اس کے دوسرے پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے اور کوئی معقول موقف اور طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
اکتوبر ۲۰۱۲ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter