Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

36 - 43
مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار
سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی کے ۱۹ مئی ۲۰۱۴ء کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ برطانیہ ایک عیسائی ملک ہے اور یہ کہتے ہوئے کسی کو جھجھک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ جبکہ انگلستان کے سابق مذہبی پیشوا آرچ بشپ آف کنٹربری لارڈ ولیمز کا کہنا ہے کہ برطانیہ اب پختہ عیسائی عقیدہ رکھنے والا ملک نہیں رہا بلکہ در حقیقت برطانیہ اب ’’بعد از عیسائیت‘‘ ملک ہے جہاں عقیدہ بڑی تیزی سے زوال پذیر ہے۔
مغربی دنیا کی مذہب کے معاشرتی کردار سے دست برداری کو دو صدیاں بیت گئی ہیں، اٹھارویں صدی کے آخر میں انقلاب فرانس سے اس کا آغاز ہوا تھا مگر کئی نسلیں گزر جانے کے بعد بھی مذہب وہاں کے اعلیٰ حلقوں میں گفتگو کا موضوع ہے اور مذہب کی اہمیت و ضرورت کا احساس ابھی تک دلوں اور دماغوں سے کھرچا نہیں جا سکا۔ گزشتہ دنوں امریکہ کی سپریم کورٹ میں یہ کیس آیا کہ دعا مذہب کی علامت ہے اس لیے ریاستی اداروں کے اجلاسوں کا آغاز یا اختتام دعا پر نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر سپریم کورٹ نے جو ریمارکس دیے وہ قابل توجہ ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ ریاستی ادارے مذہب کی بالاتری سے آزاد نہیں ہیں اور امریکی قوم دستور کے نفاذ سے پہلے بھی دعا مانگا کرتی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دستور سے الگ اور اس سے بالا کسی قوت کا بھی خود کو تابع سمجھتی ہے۔ اس لیے دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس کے ساتھ چند ہفتے قبل لندن کی ایک کانفرنس میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے اس اعلان کو بھی شامل کر لیجئے کہ وہ لندن کو غیر سودی بینکاری کا مرکز بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ اور سہ روزہ ’’دعوت‘‘ کی مذکورہ رپورٹ کے اس حصہ پر بھی نظر ڈال لی جائے جس میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اس کرب و اضطراب کا اظہار کیا ہے جس کے ذریعہ وہ عالم اسلام میں ’’اسلامیت‘‘ کے فروغ بلکہ اس کے غلبہ کے امکانات کے خطرہ سے دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ٹونی بلیئر نے لندن میں نیویارک کے میئر بلوم برگ کی کمپنیوں کے مرکز میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اسلامزم‘‘ دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور مشرق میں پاکستان اور افغانستان سے لے کر مغرب میں شمالی افریقہ تک پورا علاقہ شدید بحران کا شکار ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر کشمکش ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے۔ ٹونی بلیئر نے کہا ہے کہ شدت پسند اسلام کا خطرہ برابر بڑھ رہا ہے جو پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے اور عالمگیریت کے اس دور میں پر امن بقائے باہمی کی بیخ کنی کر رہا ہے۔
مغرب کا المیہ یہ ہے کہ اسے عالم اسلام میں اسلام کے معاشرتی کردار سے مسلمانوں کے دست بردار ہونے کے امکانات معدوم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، جس کے لیے مغرب نے دو صدیوں تک اپنے تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کے ساتھ محنت کی ہے۔ اور صرف مغرب نہیں بلکہ عالم اسلام میں اس کے فکری و ثقافتی نمائندوں نے بھی اپنا پورا زور صرف کر دیا ہے۔ جس کا نتیجہ صرف یہ نکلا ہے کہ عالم اسلام کے بعض مقتدر طبقوں اور حکومتوں کو تو وہ اسلام کے معاشرتی کردار سے استفادہ کرنے سے باز رکھنے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں لیکن مسلمانوں کی رائے عامہ اور اجتماعی دھارے کو وہ کہیں بھی اس کے لیے تیار نہیں کر پائے۔ کیونکہ دنیا کے ہر مسلمان ملک میں عامۃ المسلمین اب بھی قرآن و سنت کے قوانین کے نفاذ اور اسلامی اقدار و روایات کے فروغ کی نہ صرف خواہش رکھتے ہیں بلکہ اس کے لیے مختلف حوالوں سے جدوجہد بھی جاری ہے۔ حتیٰ کہ اس نے کچھ مقامات پر عسکریت پسندی کا رخ بھی اختیار کر لیا ہے۔
مسٹر ٹونی بلیئر جس کو ’’شدت پسند اسلام‘‘ قرار دے رہے ہیں وہ یہی ہے کہ مسلم سوسائٹی کے احکام و ضوابط اور اقدار و روایات کی بنیاد اسلام پر ہو، اور اسلام صرف عقیدہ و اخلاقیات کے دائرے میں محدود نہ رہے بلکہ اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اگر اسلام صرف عقیدہ، عبادت، اور ذاتی اخلاقیات تک محدود رہے اور اس کا اظہار مسجد کی چار دیواری سے باہر نظر نہ آئے تو یہ مغرب کے نزدیک اعتدال پسند اسلام ہے اور رواداری کا مذہب ہے۔ لیکن اگر حکومت، معیشت، سیاست، تجارت، عدالت اور معاشرت میں اسلامی اصولوں کی عملداری کی بات کی جائے تو یہ ’’شدت پسند اسلام‘‘ ہے جس کے فروغ و نفوذ کے خطرے سے مسٹر ٹونی بلیئر دنیا کو خبردار کر رہے ہیں۔ لیکن یہ صورت حال اسلام کی صداقت کا اظہار اور ’’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘‘ کا مصداق ہے کہ سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے جانشین مسٹر ڈیوڈ کیمرون اسی برطانیہ میں اسلام کے معاشی اصولوں کے مطابق غیر سودی بینکاری کے فروغ اور لندن کو اس کا مرکز بنانے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔
اس سلسلہ میں دل چسپ بات یہ ہے کہ مغرب کی قیادت کو ’’شدت پسند اسلام‘‘ کے فروغ کا خطرہ لاحق ہونے کے ساتھ ساتھ خود اپنے معاشرے میں اس مذہب کے رجحانات کی واپسی کے خطرہ کا بھی سامنا کرنا پڑ گیا ہے۔ جس سے دو صدیاں قبل دست برداری اختیار کر کے اسے معاشرتی زندگی سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ امریکی سپریم کورٹ کے ریمارکس اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ سابق آرچ پشپ آف کنٹر بری لارڈ ولیمز کا مذکورہ مکالمہ معاشرہ میں مذہب کی واپسی کے اسی رجحان کی غمازی کر رہا ہے۔ اور مذہب کے ہمارے جیسے شعوری کارکن اس منظر کو انجوائے کرتے ہوئے زیر لب گنگنا رہے ہیں کہ:
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
چند سال قبل مجھ سے واشنگٹن کی ایک مجلس میں کچھ دوستوں نے سوال کیا تھا کہ مغربی معاشرہ میں بھی مذہب کی طرف واپسی کا رجحان فروغ پاتا دکھائی دے رہا ہے اور یہاں کے دانش وروں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ مذہب کہیں معاشرے کے اجتماعی معاملات میں دوبارہ دخل اندازی تو شروع نہیں دے گا؟ انہوں نے اس سلسلہ میں میرا نقطہ نظر معلوم کرنا چاہا تو میں نے عرض کیا کہ اگر تو وہ فی الواقع مذہب ہے تو سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں ضرور دخل انداز ہوگا۔ اس لیے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات اور وحی الٰہی پر مبنی مذہب صرف فرد کی راہ نمائی کے لیے نہیں آتا بلکہ وہ سوسائٹی کی راہ نمائی کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۷ جون ۲۰۱۴ء (غالباً‌)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter