Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

16 - 43
ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘
۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء کو پنجاب کے شیخ زائد اسلامک سنٹر کی بیسویں سالانہ تقریبات کے موقع پر ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جو ’’اجتہاد‘‘ کے موضوع پر تھا۔ سنٹر کی ڈائریکٹر محترمہ ڈاکٹر شوکت جمیلہ صاحبہ کی دعوت پر راقم الحروف نے ’’دور حاضر میں اجتہاد کی ضرورت اور اس کے دائرہ کار‘‘ کے موضوع پر ایک تفصیلی مضمون اس سیمینار میں پڑھا جس میں اس سوال کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ہے؟ اور اجتہادی حوالہ سے اس وقت علمی حلقوں میں جو سرگرمیاں جاری ہیں ان میں کس قسم کی تبدیلیوں اور اضافوں کی ضرورت ہے؟ یہ مضمون ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے اپریل ۲۰۰۳ء کے شمارے میں شائع ہو رہا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
سیمینار کی ایک نشست کی صدارت پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر محترم ڈاکٹر رفیق احمد نے اور دوسری نشست کی صدارت بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے نائب صدر جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کی اور متعدد ارباب علم و دانش نے ان دو نشستوں میں اس اہم ترین موضوع پر شرکائے مذاکرہ کو اپنے گراں قدر ارشادات سے نوازا جن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان اور شریعہ اکادمی فیصل مسجد اسلام آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
مگر اس وقت ہمیں محترم ڈاکٹر رفیق احمد کے ایک انکشاف کے حوالہ سے کچھ عرض کرنا ہے جو انہوں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا اور حاضرین کو یہ بتا کر چونکا دیا کہ وہ ایک موقع پر جب یورپ کے ملک ناروے میں گئے تو معلوم ہوا کہ اس ملک میں بچوں کے لیے ’’عمر الاؤنس‘‘ کے نام سے سرکاری طور پر ایک وظیفہ جاری ہے۔ انہوں نے تھوڑا سا تجسس سے کام لیا تو انکشاف ہوا کہ بچوں کی بہبود کے لیے اس وظیفہ کا تصور مسلمانوں کے خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نظام سے لیا گیا ہے اور اسی وجہ سے انہی کے نام پر اسے عمر الاؤنس کا نام دیا گیا ہے۔
ہم اس سے قبل ایک مضمون میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس افتخار احمد چیمہ صاحب کے حوالہ سے ذکر کر چکے ہیں کہ برطانیہ میں اس وقت ویلفیئر اسٹیٹ کا جو نظام رائج ہے اور جس کے تحت بے روزگاروں، ضرورت مندوں اور معذوروں کو ریاست کی طرف سے گزارہ الاؤنس ملتا ہے اس نظام کو ترتیب دینے والے برطانوی دانشور سے جسٹس چیمہ کی اس دور میں ملاقات ہوئی تھی جب وہ برطانیہ میں زیر تعلیم تھے۔ اور اس ملاقات میں مذکورہ برطانوی دانشور نے انہیں بتایا تھا کہ ’’ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ کا یہ تصور انہوں نے حضرت عمرؓ کے نظام سے لیا اور اس کی بنیاد پر ایک پورا سسٹم مرتب کر دیا جو اس وقت برطانیہ میں رائج ہے اور جس کی وجہ سے برطانیہ کو عوام کی فلاح و بہبود کے حوالہ سے باقی ممالک سے امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہریوں کے جان و مال اور آبرو کے تحفظ بلکہ روزگار اور کفالت کی ضمانت کے حوالے سے جو آئیڈیل نظام دنیا کے سامنے پیش کیا ہے وہ رہتی دنیا تک نسل انسانی کے لیے راہنمائی کا روشن مینار رہے گا۔ لیکن بدقسمتی سے دنیا کی کافر اقوام اس سے استفادہ کر رہی ہیں مگر مسلم ممالک کی صورتحال دیکھیں تو شرم کے مارے سر زمین کی طرف جھک جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا یہ نظام ان کا خود ساختہ نہیں تھا بلکہ وہی نظام تھا جو جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا اور ان کے جانشین حضرت ابوبکرؓ کے دور میں بھی نافذ العمل رہا۔ مگر ان کے دور میں چونکہ جنگوں اور ارتداد کے فتنوں کے ساتھ زیادہ کشمکش رہی اس لیے اس نظام کو ایک مکمل اور مربوط عملی شکل دینے کا موقع نہ مل سکا اور یہ سعادت حضرت عمرؓ کو حاصل ہوئی۔ اس لیے کہ انہیں اطمینان کے ساتھ دس سال تک زمین کے ایک بڑے خطے پر حکومت کرنے کا موقع ملا اور جناب سرور کائناتؐ کی تعلیمات و ارشادات کو ایک مربوط نظام کی صورت میں سوسائٹی پر لاگو کرنے کے مواقع میسر آئے۔
حضرت عمرؓ نے نے بے روزگاروں، ضرورت مندوں اور معذوروں کے وظائف مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی بطور خاص وظائف مقرر فرمائے تاکہ ان کی پرورش اور تربیت صحیح طور پر ہوتی رہے۔ ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے بیت المال سے وظیفہ جاری ہوتا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ بھی مشہور ہے کہ یہ وظیفہ بچے کو اس وقت ملنا شروع ہوتا تھا جب وہ ماں کے دودھ سے بے نیاز ہو کر خارجی خوراک کا محتاج ہو جاتا تھا۔ اور اس کے لیے وظیفہ کے اجراء کی غرض یہ تھی کہ گھر میں ایک فرد کے اخراجات کے اضافہ پر ماں باپ مزید بوجھ محسوس نہ کریں اور انہیں اس سلسلہ میں وظیفہ کی صورت میں کچھ معاونت مل جائے۔ حضرت عمرؓ کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ ایک روز وہ رات کے وقت مدینہ منورہ میں معمول کے مطابق گشت کر رہے تھے۔ یہ گشت لوگوں کے احوال معلوم کرنے کے لیے ہوتا تھا اور حضرت عمرؓ اپنے اہل کاروں یا خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں پر انحصار کرنے کی بجائے خود گلیوں بازاروں میں گھوم کر عام شہریوں کے حالات معلوم کیا کرتے تھے۔ وہ اسی معمول کے گشت پر تھے کہ ایک گھر سے معصوم بچے کے رونے کی آواز آئی۔ وہ اسے عام سی بات سمجھ کر آگے بڑھ گئے، تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ اس گھر کے سامنے سے گزر ہوا تو اس بچے کا رونا ابھی جاری تھا۔ پھر یہ سمجھ کر چلے گئے کہ بچے رویا ہی کرتے ہیں۔ اتفاق سے تھوڑی دیر کے بعد تیسری بار اس گھر کے سامنے سے گزرے تو بچے کے رونے کی آواز پھر آرہی تھی۔ اب حضرت عمرؓ گھر کے دروازے پر رک گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے ایک خاتون کی آواز آئی کہ کون ہے؟ پوچھا کہ بچہ مسلسل کیوں رو رہا ہے؟ خاتون نے کہا کہ ماں بچے کو دودھ نہیں پلا رہی اس لیے رو رہا ہے۔ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ ماں بچے کو دودھ کیوں نہیں پلا رہی؟ اس نے جواب دیا کہ امیر المومنین نے بچوں کے وظیفے کے لیے شرط لگا رکھی ہے کہ جب وہ ماں کا دودھ چھوڑ کر خارجی خوراک کا استعمال شروع کر دے تو پھر اس کا وظیفہ جاری کیا جائے گا اس لیے بچے کی ماں اس کا دودھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ خارجی خوراک کا عادی ہو اور اسے پیش کر کے اس کا وظیفہ جاری کرایا جا سکے۔
روایات میں آتا ہے کہ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنی پیشانی پکڑ لی اور خود سے مخاطب ہو کر بولے کہ ’’عمر! تم نے کتنے معصوم بچوں کو اس طرح رلایا ہوگا؟‘‘ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے اس عورت سے کہا کہ وہ خود امیر المومنین عمرؓ ہیں، اس بچے کی ماں سے کہہ دیں کہ وہ اسے دودھ پلائےا ور صبح اسے میرے پاس لے آؤ اس کا وظیفہ جاری کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اگلے روز صرف اس بچے کا وظیفہ جاری نہیں ہوا بلکہ امیر المومنین نے اپنے سابقہ آرڈر میں یہ کہہ کر ترمیم کر دی کہ بچے کے وظیفے کے لیے ماں کا دودھ چھوڑنے کا انتظام نہ کیا جائے بلکہ پیدا ہوتے ہی اس کا وظیفہ جاری کر دیا جائے۔
بچوں کو یہ وظیفہ برطانیہ میں بھی ملتا ہے اور اتنا مل جاتا ہے کہ اگر کسی گھر میں پانچ سات بچے ہوں تو ان کے وظیفے پر گھر کا گزارہ ’’غریبی دعوے‘‘ کے مطابق آسانی سے ہو جاتا ہے۔ ہمارے محترم بزرگ اور ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری لندن میں وائٹ چیپل کے علاقہ میں رہتے ہیں، اس علاقہ میں بنگالیوں کی آبادی کثرت سے ہے۔ ایک روز میں نے مولانا منصوری سے پوچھا کہ آپ کے اردگرد جو بنگالی حضرات رہتے ہیں وہ کام کاج کیا کرتے ہیں؟ مولانا بے تکلفی سے بولے انہیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہر ایک کے آٹھ آٹھ دس دس بچے ہیں بس ان کا وظیفہ مل جاتا ہے اور وہ اس سے گزارہ چلا لیتے ہیں۔
برطانیہ میں تو بچوں کے اس وظیفے کا مجھے علم ہے بلکہ ایک لطیفہ اور بھی اس حوالہ سے ملاحظہ فرمائیں کہ برمنگھم میں ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ان کے بچے نے کسی چیز کا تقاضا کیا تو انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی کہ میرے پاس گنجائش نہیں ہے۔ اس پر وہ بچہ فورًا بولا کہ آپ نے کون سا اپنی جیب سے مجھے یہ چیز لے کر دینی ہے، میرا وظیفہ جو حکومت کی طرف سے آپ کو ملتا ہے اس میں سے مجھے یہ چیز لے کر دے دیں۔
محترم ڈاکٹر رفیق احمد سے معلوم ہوا کہ یہ وظیفہ ناروے میں بھی دیا جاتا ہے اور حضرت عمرؓ کے نام سے جاری ہے۔ اس میں جہاں اسلام کے عادلانہ نظام کی برکات اور حضرت عمرؓ کے عدل و انصاف کا تصور اجاگر ہوتا ہے وہاں ہمارے لیے یہ شرم او رعبرت کا مقام بھی ہے کہ اسلامی نظام کی برکات اور افادیت کے پہلو تو دوسروں نے سنبھال لیے ہیں اور ہم محض ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نعروں پر گزارہ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۲۹ مارچ ۲۰۰۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter