Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

15 - 43
اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون
روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی 15 فروری 2003ء کی رپورٹ کے مطابق وفاقی جمہوریہ جرمنی کے وزیر خارجہ مسٹر جواگن چوروبوچ نے گزشتہ روز جرمنی میں پاکستانی سفارت خانہ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام اور مغرب کے درمیان ڈائیلاگ کے لیے جرمنی اور پاکستان مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ تقریب پاکستان اور جرمنی کے سفارتی تعلقات کی پچاسویں سالگرہ کے حوالے سے منعقد ہوئی اور اس سے جرمن وزیر خارجہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں استحکام پیدا کرنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی جرمنی اور پاکستان ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔
جہاں تک ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے درمیان ڈائیلاگ کی بات ہے یہ کافی عرصہ سے مختلف حلقوں کی طرف سے سامنے آرہی ہے۔ اور جوں جوں مسلمانوں اور اہل مغرب کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے بعض سنجیدہ حلقے اس بات پر زیادہ زور دے رہے ہیں کہ اسلام اور مغرب کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کیلئے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے اور باہمی گفت و شنید اور مکالمہ ناگزیر ہو گیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو سمجھے میں مدد ملے اور ہو سکتا ہے اس سے کشیدگی کے اسباب میں کوئی کمی واقع ہو جائے۔
اہل اسلام نے ڈائیلاگ اور مکالمہ کی ضرورت اور اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا اور یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں یہودی قبائل کے ساتھ جو ’’میثاق‘‘ ہوا تھا وہ ڈائیلاگ اور مکالمہ ہی کی ایک صورت تھی۔ اور بقائے باہمی کے اس منشور کی بنیاد پر جناب نبی اکرمؐ نے مسلمانوں اور یہودیوں کو اس بات پر کا موقع فراہم کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کے موقف و مزاج سے آگاہ ہوں، لیکن یہودیوں کی روایتی سازشی ذہنیت و مزاج کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ پھر عیسائیوں کے ساتھ بھی جناب نبی اکرمؐ نے مذاکرہ و مکالمہ کا آغاز کیا۔ نجران سے مسیحی علماء کا وفد آیا جسے آنحضرتؐ نے مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا اور ان کے ساتھ کئی روز تک گفتگو ہوتی رہی۔ اس موقع پر قرآن کریم سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۶۴ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضورؐ سے اہل کتاب کو یہ دعوت بھی دلوائی کہ آؤ ہم سب ان اقدار و تعلیمات پر جمع ہو جائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں اور قرآن کریم، تورات، اور انجیل ان پر متفق ہیں۔ لیکن مسیحی علماء نے اس دعوت کو قبول نہ کیا۔
اس لیے جرمنی کے وزیر خارجہ کی طرف سے اسلام اور مغرب کے درمیان ڈائیلاگ کی بات ہمارے لیے نئی نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اس سے کوئی حجاب و انکار ہے لیکن اس موقع پر ہم اس مذاکرہ و مکالمہ اور ڈائیلاگ کے ناگزیر تقاضوں کے حوالے سے دو تین گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
1- سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت اسلام اور مغرب کے درمیان کشمکش کی جو فضا موجود ہے اور جس کی سنگینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس کے اسباب کیا ہیں، اور کیا صرف مذہبی تعلیمات کی وجہ سے یہ تصادم رونما ہوا ہے؟ ہمارے خیال میں اصل صورتحال یہ نہیں ہے اور بنیادی طور پر اس نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اصل قصہ یہ ہے کہ مغرب نے مذہب کو ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ قرار دے کر کباڑ خانے میں پھینک دیا ہے اور مغرب کے پورے نظام، فکر و فلسفہ اور معاشرت کی بنیاد لا مذہبیت پر بلکہ مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی پر ہے۔ جبکہ اہل اسلام اپنے مذہب کو ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی مذہب کے معاشرتی اور اجتماعی کردار سے دستبرداری کو قبول کر رہے ہیں۔ مغرب اپنی قوت، پروپیگنڈے اور طعن و تشنیع کے ہتھکنڈوں کے ذریعہ مسلمانوں کو اس بات پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اہل اسلام نے اس کے اس دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا ہے۔
یہی صورتحال مسیحی مذہبی حلقوں میں بھی ہے۔ مسیحی مذہبی حلقوں میں ایسے علماء اور دانش وروں کی ایک بڑی تعداد دنیا کے ہر خطے میں حتیٰ کے مغرب بلکہ امریکہ میں بھی موجود ہے جو معاشرتی زندگی اور سوسائٹی کے اجتماعی مسائل سے مذہب کی لاتعلقی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر رہے اور دبے لفظوں میں اس کا وقتاً فوقتاً اظہار بھی کرتے رہتے ہیں لیکن سخت دباؤ کی وجہ سے کھلم کھلا اس کا اعلان نہیں کر پا رہے۔ اس لیے مغرب کی طرف سے دنیا پر لامذہبیت مسلط کرنے کی یہ مہم صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ مسیحیت اور مسیحی مذہبی حلقوں کے خلاف بھی ہے۔ لہٰذا اسے مغرب اور اسلام کی کشمکش قرار دینا اصولاً درست نہیں ہے۔ یہ درحقیقت مذہب اور لامذہبیت کی کشمکش ہے اور اس میں جس طرح مسلمانوں کے دینی حلقے مغرب کی مہم کا ہدف ہیں اسی طرح مسیحیت کے وہ مذہبی حلقے بھی اس کی زد میں ہیں جو مذہب کے معاشرتی کردار پر اب بھی یقین رکھتے ہیں اور سیکولر فلسفہ و نظام کو انہوں نے ابھی تک ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔
ہمارا خیال ہے کہ مغرب کی لامذہبیت کے ساتھ ڈائیلاگ میں مسلم اور مسیحی علماء ایک مشترکہ فریق اور فطری حلیف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اگر سنجیدگی کے ساتھ محنت کی جائے تو لا مذہبیت کے ساتھ مکالمہ اور ڈائیلاگ کے لیے مسلم اور مسیحی علماء کا مشترکہ گروپ تشکیل پا سکتا ہے۔ مگر ہماری مجبوری یہ ہے کہ جن مراکز اور اداروں کے پاس اس کام کے وسائل موجود ہیں ان کے نزدیک اس کام کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور جو لوگ اس کام کی سوچ اور صلاحیت رکھتے ہیں وہ وسائل و اسباب سے تہی دامن ہیں۔
2- دوسری بات اس سلسلہ میں قابل توجہ یہ ہے کہ مغرب کس بنیاد پر اہل اسلام سے مکالمہ چاہتا ہے؟ مغرب کی اب تک یہ کوشش رہی ہے کہ دنیا بھر کے اہل اسلام، اسلام کی بنیادی تعلیمات ، اور قرآن و سنت کی تصریحات سے دستبردار ہو کر دین کی نئی تعبیر و تشریح کے نام پر وہ ’’درآمدی اسلام‘‘ قبول کر لیں جو مستشرقین اور ان کے تربیت یافتہ مسلم دانشوروں کے ذریعہ گزشتہ دو صدیوں سے مسلم معاشرہ میں پھیلایا جا رہا ہے، اور جسے حال ہی میں امریکی قیادت کی طرف سے ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کے نام پر مغرب کے لیے قابل قبول قرار دینے کا عندیہ ظاہر کیا گیا ہے۔ حالانکہ دو صدیوں کی مسلسل محنت کے باوجود دنیا کے کسی بھی خطہ کے عام مسلمان اس درآمدی اور موڈریٹ اسلام کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی غالب اکثریت اسی اسلام پر ڈٹی ہوئی ہے جو قرآن کریم اور سنت نبویؐ کے ساتھ ساتھ جمہور علماء امت کی چودہ سو سالہ اجتماعی تعبیر کی صورت میں موجود ہے۔
ہماری گزارش یہ ہے کہ مغرب اس ناکام کوشش میں اپنا مزید وقت ضائع نہ کرے بلکہ کھلے دل سے یہ تسلیم کر لے کہ مسلمانوں کو قرآن و سنت کی تصریحات اور اسلام کی چودہ سو سالہ اجتماعی تعبیر سے دستبرداری پر آمادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ معروضی حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے اسلام کے وجود کو تسلیم کرلے اور اس بات پر مکالمہ اور ڈائیلاگ کا آغاز کرے کہ اس اسلام اور اس کو ماننے والے مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں بقائے باہمی کا کون سا فارمولا قابل عمل ہو سکتا ہے اور اس کے لیے نئے بین الاقوامی معاہدہ کے حدود و ضوابط کیا ہونے چاہئیں۔
3- تیسری گزارش یہ ہے کہ مغرب اسلام کے ساتھ مکالمہ اور ڈائیلاگ کن لوگوں کے ذریعہ کرنا چاہتا ہے؟ اگر مغرب یہ خیال کرتا ہے کہ اس وقت مسلمان ملکوں کے دارالحکومت میں جو لوگ اقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں ان کے ساتھ گفتگو کر کے وہ اسے ’’اسلام اور مغرب کے درمیان ڈائیلاگ‘‘ کے طور پر پیش کر سکتا ہے تو یہ مغربی حکمرانوں کی خام خیالی ہے۔ کیونکہ مسلمان ممالک کے دارالحکومتوں میں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان لوگ نہ مسلمانوں کے نمائندے ہیں اور نہ ہی اسلام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہے۔ یہ مغرب کے نمائندے ہیں، مغرب کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں، اور مسلم معاشرہ میں اسلام کی بجائے مغربی فکر و فلسفہ کی ترجمانی کی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی گفت و شنید اور ڈائیلاگ کا اہتمام کر کے مغرب اگر کسی نتیجہ اعلان کر بھی دے گا تو اسے عالم اسلام کے دینی حلقوں اور قرآن و سنت پر بے لچک یقین رکھنے والی دنیا کی غالب مسلم اکثریت کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں ہوگی۔ اور ایسے ڈائیلاگ کے ڈرامے کے باوجود کشمکش و کشیدگی کی صورتحال جوں کی توں رہے گی اور مکر و فریب کے اس نئے جال سے بھی مغرب کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر مغرب کے دانشور اسلام کے ساتھ مکالمہ میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اسلام کے حقیقی نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرنا ہوگی۔ اسلام کے حقیقی نمائندے اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ مساجد و مدارس میں بیٹھے ہیں اور اسلام کے حوالہ سے ملت اسلامیہ انہی کی بات سنتی اور مانتی ہے۔
اس کے ساتھ ایک اور حقیقت کا اظہار بھی شاید نا مناسب نہ ہو کہ اپنے تاریخی پس منظر کے حوالے سے ہمارے نزدیک جرمنی دوسرے یورپی ممالک سے مختلف حیثیت رکھتا ہے۔ جرمنی ان استعماری یورپی ممالک کی دوڑ میں شریک نہیں تھا جنہوں نے اکثر مسلم ممالک کو گزشتہ دو صدیوں کے درمیان نو آبادی بنائے رکھا ہے۔ یورپ میں خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کی مہم میں بھی جرمنی کا وہ حصہ نہیں ہے جو برطانیہ، فرانس اور اٹلی وغیرہ کا رہا ہے بلکہ پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ اور جرمنی آپس میں حلیف تھے۔ جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور پروفیسر برکت اللہ بھوپالیؒ جیسے راہنماؤں کو جرمنی کا تعاون حاصل رہا ہے۔ جس کی تفصیلات خود جرمنی کی وزارت خارجہ کے ایک افسر پروفیسر اولف شمل کی کتاب ’’اعلان برلن‘‘ میں شائع ہو چکی ہیں۔ خلافت عثمانیہ اور عالم اسلام کے دیگر کئی ممالک کی طرح جرمنی بھی یورپی استعماری قوتوں کا کشتہ ستم رہا ہے اور ’’جہاد افغانستان‘‘ میں مسلم مجاہدین کی قربانیوں کے نتیجے میں جرمنی کو اتحاد نصیب ہوا ہے۔ اس لیے اگر اسلام اور مغرب کے درمیان ڈائیلاگ کی بات جرمنی کی طرف سے آئی ہے تو ہم دینی کارکنوں کے لیے زیادہ خوشی کی بات ہے لیکن یہ مکالمہ صحیح رخ پر ہونا چاہیے اور صحیح لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۹ فروری ۲۰۰۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter