Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

34 - 43
برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی
اے پی پی کے حوالہ سے ’’پاکستان‘‘ میں 6 اگست کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق لندن کے علاقے ورسسٹر شائر کے ایک مڈل سکول نے 9 سال تک کی عمر کی طالبات پر سکرٹ پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق واک ورڈ چرچ آف انگلینڈ مڈل سکول کا موقف ہے کہ طالبات نے بہت ہی چھوٹے سکرٹ پہننا شروع کر دیے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے مجبوری میں پابندی لگائی ہے۔ سکول انتظامیہ نے طالبات سے کہا ہے کہ وہ ستمبر سے ٹراؤزر اور واجبی سا بلاؤزر پہننے کی بجائے یونیفارم کا ٹاپ زیب تن کریں، لیکن طالبات کے والدین نے اس پابندی پر تنقید کی ہے، ان کے خیال میں اس پابندی سے ان کی لڑکیاں ابہام کا شکار ہوں گی۔ لندن میں اب تک 63 سکولوں میں سکرٹ پہننے پر پابندی لگائی جا چکی ہے جن میں زیادہ تر سیکنڈری سکول ہیں۔
لباس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے زینت کے ساتھ ساتھ ستر پوشی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر لباس کے چار مقاصد بیان کیے گئے ہیں:
لباس زینت اور ستر پوشی کا ذریعہ ہے۔ (سورۃ الاعراف 26)
لباس گرمی سے بچاؤ اور حملہ سے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ (سورۃ النحل 81)
اس لیے ستر پوشی لباس کے بنیادی مقاصد میں سے ہے بلکہ سورۃ الاعراف کی آیت 27 میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو خبردار کیا ہے کہ شیطان نے جس طرح تمہارے ماں باپ یعنی حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء علیہا السلام کو بے لباس کر کے جنت سے نکالا تھا، اسی طرح وہ تمہیں بھی بے لباس کر کے فتنے میں ڈالے گا اور جنت میں جانے سے روکے گا۔ جبکہ اس کی تفصیل بھی سورۃ الاعراف کی آیت 20 تا 22 میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جب حضرت آدم و حواء علیہما السلام نے شجر ممنوعہ کا پھل چکھا تو ان کا جنت کا لباس اتر گیا اور وہ اپنا ستر چھپانے کے لیے بے ساختہ درخت کے پتوں سے ستر پوشی کرنے لگے۔ قران کریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ستر پوشی‘‘ انسان کی فطرت سلیم کا حصہ ہے کیونکہ نسل انسانی کے پہلے جوڑے نے اچانک ستر کھل جانے پر بے ساختہ درخت کے پتوں کی طرف رخ کیا تھا تاکہ وہ اپنا ستر ڈھانپ سکیں اور اللہ تعالیٰ نے بے لباسی کو شیطان کا ایک ہتھکنڈہ قرار دیا ہے جس کے وہ ذریعہ وہ انسانوں کو فتنوں میں ڈالتا اور گمراہ کرتا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد ارشادات گرامی میں لباس کی اہمیت اور اس کے مقاصد کی طرف توجہ دلائی ہے اور لباس کے حوالہ سے مسلمانوں کو واضح ہدایات دی ہیں جو نہ صرف اسلامی معاشرت اور ثقافت کی بنیاد ہیں بلکہ انسانی فطرت اور نیچر کی بھی نشاندہی کرتی ہیں۔ ان میں سے چند ارشادات نبویؐ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لباس کی ایسی کیفیت سے منع فرمایا ہے جو (کاشفا عن فرجہ) شرم گاہ کے عریاں ہو جانے کا احتمال رکھتی ہو۔ اس حدیث میں احتباء کا ذکر ہے کہ بعض لوگ ایک ہی چادر میں جسم کو لپیٹ لیتے تھے جس سے اٹھنے بیٹھنے یا ہوا کا سامنا کرنے سے بے ستر ہونے کا خطرہ ہوتا تھا، اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرما دیا۔
ابوداؤد شریف کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلقین فرمائی کہ جب لڑکی بالغ ہو جائے تو اس کا چہرہ اور بازو وغیرہ نظر نہیں آنے چاہئیں۔
حضرت دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک قبطی چادر دی اور فرمایا کہ اس کے دو حصے کر کے ایک خود استعمال کرو اور دوسرا اپنی بیوی کو دے دو۔ ابوداؤد شریف کی روایت کے مطابق چادر باریک ہوجانے کی وجہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ اپنی بیوی سے کہہ دو کہ وہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا بھی لگائے تاکہ اس کا جسم نظر نہ آئے۔
مسند احمدؒ کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا لباس پہننے سے منع فرمایا ہے جو شہرت کا باعث ہو یعنی اس لباس کا خواہ مخواہ لوگوں میں تذکرہ ہونے لگے۔
نسائی شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا لباس مت پہنو جس میں فضول خرچی ہو یا تکبر اور بڑائی کا اظہار ہو۔
ترمذی شریف میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سونے اور ریشم کا استعمال میری امت کی عورتوں کے لیے حلال کیا گیا ہے اور مردوں کے لیے حرام کر دیا گیا ہے۔
ابوداؤد شریف کی روایت کے مطابق حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کا لباس پہننے والی عورتوں اور عورتوں جیسا لباس پہننے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اور مرد کے لباس میں فرق کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
مسند احمدؒ کی روایت کے مطابق حضرت مالک بن فضلہؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو میں نے معمولی سا لباس پہن رکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے پاس اتنی رقم نہیں کہ کوئی اچھا لباس پہن سکو؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں تو بڑی حیثیت والا شخص ہوں اور میرے پاس تو اتنے اونٹ اور بکریاں ہیں۔ اس پر جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا فلیرٰی اثر نعمت اللّٰہ علیک تجھ پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اثرات نظر آنے چاہئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو لباس اپنی حیثیت کے مطابق پہننا چاہیے۔ البتہ اس میں شوخ پن، زنانہ پن، فضول خرچی، شہرت اور دکھاوا نہیں ہونا چاہیے۔
موطا امام مالکؒ کی روایت کے مطابق حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا جس کے بال پراگندہ تھے اور داڑھی بکھری ہوئی تھی۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اشارے سے پاس بلایا اور بال اور داڑھی سنوارنے کی تلقین فرمائی۔ وہ اس حکم کی تعمیل کر کے واپس چلا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں سے فرمایا کہ یہ شخص اس طرح اچھا لگتا ہے یا اس کیفیت میں کہ اس کے بال شیطان کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔
لباس کے بارے میں قرآن و سنت کی یہ فطری تعلیمات ایک باوقار اور متوازن انسانی معاشرت کی حقیقی بنیادیں ہیں لیکن مغرب نے اس حوالہ سے گزشتہ دو صدیوں سے جو طرز عمل اختیار کر رکھا ہے وہ قرآن کریم کی مذکورہ پیش گوئی کے مطابق فتنوں کے مسلسل پھیلاؤ کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف عورت کی شرم و حیاء مغربی معاشرہ میں قصہ پارینہ بن کر رہ گئی ہے بلکہ مرد اور عورت کا امتیاز بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں لطیفہ کی ایک بات ہے کہ ایک موقع پر میں نے لندن کے کسی بازار میں جاتے ہوئے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ یار جانے والوں کو اگر سامنے سے نہ دیکھا جائے تو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ جا رہا ہے یا جا رہی ہے۔ اس نے فورًا کہا کہ کیوں نہیں پتہ چلتا، صاف معلوم ہو جاتا ہے۔ اگر اس نے پتلون وغیرہ پہن رکھی ہے تو جا رہا ہے اور نہیں پہن رکھی تو جا رہی ہے۔ یہ اگرچہ لطیفے کے انداز کی بات ہے لیکن حقیقت سے خالی نہیں ہے۔
عورت کے لباس کو مختصر سے مختصر ترین کرتے چلے جانے کی دوڑ میں مغرب اس حد تک آگے جا چکا ہے کہ اب خود اس کو یہ بے لباسی یا کم لباسی محسوس ہونے لگی ہے۔ جس کا اظہار لندن کے 63 کے لگ بھگ سیکنڈری سکولوں میں لڑکیوں کو سکرٹ کی بجائے پورا لباس پہننے کی اس ہدایت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اور یہ بھی ان علامتوں میں سے ایک ہے جو انسان کی اصل فطرت کی طرف لوٹنے کی خواہش کے سلیم الفطرت لوگوں کے دلوں میں مچلنے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مغربی دنیا میں اسلام قبول کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے جو مغرب کے غیر فطری معاشرتی ماحول سے تنگ آکر حقیقی عزت و وقار اور حیاء و ستر کے حصول کے لیے اسلام کے دامن میں پناہ لے رہی ہیں۔ یہ آج کے دور میں قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا اظہار و اعجاز ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۸ اگست ۲۰۱۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter