Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

33 - 43
مغربی ایجنڈا اور جمہوریت
بعض دوستوں کو اس بات پر تعجب ہو رہا ہے کہ مصر میں صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اس قدر جلدی کیوں کی گئی ہے اور اسے ایک سال تک بھی برداشت نہیں کیا گیا جبکہ ہمیں حیرت ہے کہ ایک سال تک اسے برداشت کیسے کر لیا گیا ہے؟ ربع صدی قبل الجزائر کے عوام نے ’’اسلامک سالویشن فرنٹ‘‘ کو انتخابات کے پہلے مرحلہ میں اَسّی فی صد ووٹوں کا اعتماد دیا تھا تو اسے دوسرے مرحلہ کا موقع نہیں دیا گیا تھا اور فوجی مداخلت کے ذریعہ نہ صرف انتخابات کے دوسرے مرحلہ کو منسوخ کر دیا گیا تھا بلکہ ’’متحدہ اسلامی محاذ‘‘ کو خانہ جنگی میں الجھا کر ایک دوسرے کے خلاف اس طرح دست و گریبان کر دیا گیا تھا کہ کم و بیش ایک لاکھ الجزائری مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔
مغرب نے اٹھارویں صدی کے اختتام پر انقلاب فرانس کے ذریعہ مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی کر کے سول سوسائٹی کے نام پر لا مذہبی سیاست و معاشرت کے دور کا آغاز کیا تھا تو مغرب میں بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کے صدیوں پر محیط مشترکہ ظلم و جبر کے پس منظر میں بات کچھ سمجھ میں آرہی تھی، لیکن جب اس فکر و فلسفہ کو پوری دنیا تک پھیلانے اور بالخصوص عالم اسلام کو اس کی لپیٹ میں لانے کی مہم کا آغاز کیا گیا تو بات سمجھ سے بالاتر ہوگئی اور عقل و شعور نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اس لیے کہ بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کی تکون کا جو مشترکہ ظالمانہ کردار ’’تاریک صدیوں‘‘ کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے، عالم اسلام اس پس منظر سے یکسر خالی تھا۔ جس رد عمل کا اظہار یورپ کی سول وسائٹی نے ’’انقلاب فرانس‘‘ کی صورت میں کیا تھا وہ امت مسلمہ کی سرے سے ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ عالم اسلام میں مذہب کا کردار ہمیشہ غریب دوستی، عدل و انصاف اور حق پرستی کا رہا ہے۔ بالخصوص اسلام کے عدالتی نظام نے بادشاہت اور حکمران طبقوں کے خلاف عوام کو جو انصاف اور تحفظ مسلسل بارہ سو برس تک فراہم کیا ہے اس کی مثال دنیا کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن مغرب نے اپنا مخصوص معاشرتی پس منظر اور اس پر اپنا ہی مخصوص رد عمل عالم اسلام پر بھی مسلط کرنے کی کوشش شروع کر دی تو امت مسلمہ اور مغرب کے درمیان اس کشمکش کا آغاز ہوگیا جسے ’’ثقافتی جنگ‘‘ کہنے سے ابھی تک انکار کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے پرت جوں جوں کھلتے جا رہے ہیں مغرب کا ثقافتی تعصب اور مغربی تہذیب و فلسفہ کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کی خواہش بے نقاب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اب تو ’’عالمی تہذیب و ثقافت‘‘ کے تحفظ کے نام پر اقوام و ممالک کی خود مختاری کو پامال کرنے، لاکھوں افراد کے قتل عام اور مسلسل ڈرون حملوں تک بات جا پہنچی ہے، جبکہ اس سب کچھ کے پیچھے یہی خواہش اور ضد کار فرما ہے کہ مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی کو پوری دنیا سے منوایا جائے، اور خاص طور پر مسلمانوں کو ان کے مذہب کے قومی و سیاسی کردار اور ان کی تہذیب و ثقافت سے محروم کر کے مغرب کے ’’مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی‘‘ پر مبنی فلسفہ و نظام ان سے منوایا جائے۔
مغرب نے ’’انقلاب فرانس‘‘ کے ذریعہ دنیا کو پیغام دیا تھا کہ اب سول سوسائٹی ہی سب کچھ ہے اور کسی بھی ملک کے نظام و ثقافت کی بنیاد صرف اسی بات پر ہوگی کہ اس ملک کی سول سوسائٹی کی خواہش کیا ہے۔ مغرب اس ’’خوشنما ڈھول‘‘ کو دو صدیوں سے مسلسل پیٹے جا رہا ہے، لیکن عالم اسلام اسی سول سوسائٹی کے ذریعہ مذہب کے سیاسی و معاشرتی کردار کو واپس لا رہا ہے تو مغرب کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور وہ اس کو روکنے کے لیے ہر حربہ اختیار کرنے پر اتر آیا ہے۔ یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ اس ساری جنگ کا اصل مقصد اور ہدف صرف یہ ہے کہ عالم اسلام میں مذہب کے سیاسی و معاشرتی کردار کی واپسی کو روکا جائے، حتیٰ کہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں مغرب کے ’’بوسٹر‘‘ اب یہ آوازیں دینے لگے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کے ذریعہ جس نظریاتی سفر کا آغاز کیا تھا اور اس پر قومی زندگی کے اصولوں کی بنیاد رکھی تھی اسے ریورس گیئر میں لایا جائے اور ’’قیام پاکستان‘‘ کو انقلاب فرانس کے ساتھ ہم آہنگی کا ’’اعزاز‘‘ بخشتے ہوئے اس دستور و قانون سے مذہب کے اثرات و نشانات کو محو کر دیا جائے۔
الجزائر کا مسئلہ بھی یہی تھا اور مصر کا مسئلہ بھی یہی ہے، نو آبادیاتی قوتوں نے مسلم ممالک پر قبضہ کے دوران اسی دن کے لیے ہر ملک میں ایک ہی طرز کی اسٹیبلشمنٹ تیار کی تھی جو اپنا کردار پوری وفاداری کے ساتھ ادا کر رہی ہے اور وفاداری کی آخری حد تک جانے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ صدر محمد مرسی کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے اور ان کی جماعت نے رائے عامہ کو اور سول سوسائٹی کو اپنی جدوجہد کا ذریعہ بنایا اور انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کر کے دنیا کو ایک بار پھر بتا دیا کہ عالم اسلام میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ صرف دینی حلقوں کا مسئلہ نہیں بلکہ عوام کی آواز ہے اور سول سوسائٹی کی خواہش اور طلب ہے۔ الجزائر میں بھی یہی ہوا تھا اور دنیا کے جس مسلمان ملک میں عوام کی خواہش کو آزادانہ طور پر معلوم کرنے کا دیانتدارانہ اہتمام کیا جائے گا اس کا نتیجہ الجزائر اور مصر سے مختلف نہیں ہوگا۔ لیکن مغرب کا مسئلہ ’’سول سوسائٹی‘‘ نہیں رہا بلکہ اب اس کے تمام تر ’’امور و مسائل‘‘ اسی ایک نکتہ پر مرکوز ہوتے جا رہے ہیں کہ عالم اسلام میں اسلام کے معاشرتی و سیاسی کردار کی واپسی کو کیسے روکا جائے؟ اس نے جبر و تشدد، لالچ، لابنگ اور دباؤ کے تمام وسائل اسی کام کے لیے وقف کر دیے ہیں اور ہر مسلمان ملک میں اس کے ’’بوسٹر‘‘ یہی راگ الاپ رہے ہیں۔ لیکن وہ مغالطہ کا شکار ہیں اور اسلام اور مسیحیت کے فرق کو محسوس نہیں کر رہے۔ اسلام ایک زندہ مذہب ہے، اس کی اوریجنل تعلیمات محفوظ حالت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہیں۔ انسانی معاشرت کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت آج بھی ان میں موجود اور تازہ ہے جبکہ اسلامی تعلیمات اور معاشرتی شعور سے بہرہ ور ارباب علم و فضل کی کھیپ عالم اسلام میں سول سوسائٹی کی قیادت کے لیے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس لیے صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت سے ہمیں دکھ ضرور پہنچا ہے، لیکن مایوسی نہیں ہے اس لیے کہ عالم اسلام میں بیداری کی جو لہر آگے بڑھ رہی ہے اس کا راستہ روکنا اب کسی کے بس میں نہیں رہا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
اگست ۲۰۱۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter