Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

6 - 43
ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ
اسلام آباد کے ایک موقر جریدے نے 31 مارچ 2000ء کو ایک انٹرنیشنل نیوز ایجنسی کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ نیویارک میں امریکی یہودیوں کے سب سے بڑے فرقہ سے تعلق رکھنے والے پادریوں نے ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہودی پادریوں کی کانفرنس نے تمام یہودی پادریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ہی جنس کے افراد کی باہمی شادی کی مذہبی رسومات ادا کریں۔ یہودی پادریوں کی کانفرنس کے صدر نے کہا ہے کہ ہم جنس پرستی کو تسلیم کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ خدا نے تمام انسانوں کو اپنے عکس میں بنایا ہے۔
ہم جنس پرستی یعنی مرد کے مرد کے ساتھ جنسی تعلقات اور عورت کے عورت کے ساتھ جنسی تعلقات اسلام کی رو سے قطعی حرام ہیں۔ دو مردوں کا باہمی جنسی تعلق ’’لواطت‘‘ جبکہ دو عورتوں کا باہمی جنسی تعلق ’’مساحقت‘‘ کہلاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے شدت کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے۔ قرآن کریم نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے اعمال بد میں اس قبیح فعل کا ذکر کیا ہے اور اس کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس بدعملی کی وجہ سے قوم لوط پر عذاب آیا اور سدوم اور عمورہ کی بستیوں پر آسمان سے پتھروں کی اس قدر بارش ہوئی کہ وہ بستیاں زمین میں دھنس گئیں۔ چنانچہ آج بھی بحیرۂ مردار قوم لوط پر نازل ہونے والے اس خدائی قہر کی زندہ شہادت کے طور پر موجود ہے۔
سابقہ کتب سماویہ میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے اور تورات و انجیل دونوں میں اس فعل بد کو حرام کاری قرار دے کر اس کی مذمت کی گئی ہے۔ اسرائیلی روایات کے مطابق کنعانی بت خانوں میں کسبی عورتوں کی طرح کسبی مرد بھی بدکاری کے لیے مہیا کیے جاتے تھے جو اجرت پر اس فعل بد کا ارتکاب کرتے تھے اور انہیں کنعانیوں کے ہاں ’’پاک عورتوں‘‘ اور ’’پاک مردوں‘‘ کا درجہ حاصل تھا۔ مگر تورات میں اسے بدکاری قرار دے کر اس کی کمائی کو ’’کتے کی کمائی‘‘ کہا گیا ہے۔
اسلام کی طرح بدکاری کی سزا سابقہ آسمانی مذاہب میں بھی یہی تھی کہ بدکاری کے مرتکب شادی شدہ افراد کو سنگسار کر دیا جاتا تھا۔ جناب نبی اکرمؐ نے جہاں زنا کی سزا بیان کی ہے وہاں لواطت کے اس عمل قبیح کی سزا یہ بیان فرمائی ہے کہ ’’فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دیا جائے‘‘۔ امت کے تمام فقہی مکاتب فکر میں یہ فعل حرام سمجھا گیا ہے اور اس کی سزا موت بیان کی گئی ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ احناف کے نزدیک موت کی یہ سزا شرعی حد کے طور پر نہیں بلکہ تعزیر کے طور پر ہے، جبکہ باقی فقہاء نے اسے حد شرعی قرار دیا ہے۔ لیکن اس فعل کے حرام اور قبیح ہونے اور اس کے مرتکب افراد کو سخت سزا دینے پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔
لواطت شرعی طور پر انتہائی غلط اور شرمناک فعل ہونے کے ساتھ ساتھ طبی طور پر انسان کے لیے سخت نقصان دہ ہے اور عام انسانی اخلاق کے حوالہ سے بھی اسے کبھی اچھا کام نہیں سمجھا گیا۔ مگر برا ہو مغرب کے بے لگام تصور آزادی کا کہ اس میں یہ بد بلکہ بدتر فعل بھی قانون کا جواز حاصل کر چکا ہے۔ مغرب نے آزادیوں کی فہرست میں ’’جنس کی آزادی‘‘ بھی شامل کرلی ہے اور ’’فری سیکس‘‘ کا یہ فلسفہ مذہب و اخلاق اور انسانیت کی تمام حدود کو پار کر گیا ہے۔ قانونی طور پر تو امریکہ اور یورپ میں مرد و عورت کی باہمی رضا سے ہونے والے زنا اور اسی طرح ہم جنس پرستی کو ایک عرصہ سے جواز کی سند حاصل ہے اور اکثر ممالک میں اس سلسلہ میں باقاعدہ قانون سازی کر کے اس کی اجازت دی گئی ہے۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال ایک برطانوی عدالت نے باہمی جنسی تعلق رکھنے والے دو مردوں کو آپس میں میاں بیوی تسلیم کرتے ہوئے ایک کی موت کی صورت میں دوسرے کو اس کا وارث بھی ٹھہرا دیا ہے۔ لیکن اب اس بے حیائی اور بدکاری کو مذہبی جواز کا درجہ دینے کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے جو اخلاق و شرافت کی آخری حدوں کو پھلانگ جانے کے مترادف ہے اور اس پر لعنت و نفرین کے سوا کسی اور رد عمل کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔
چند سال قبل برطانیہ کے سب سے بڑے مسیحی مذہبی ادارہ چرچ آف انگلینڈ کی ایک ہدایت منظر عام پر آئی تھی جس میں چرچ نے اپنی شاخوں سے کہا تھا کہ چونکہ شادی کے بغیر اکٹھے رہنے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد پچاس فیصد سے بڑھ گئی ہے اور سوسائٹی کی اکثریت نے اس عمل کو قبول کر لیا ہے اس لیے آئندہ اس عمل کو گناہ نہ کہا جائے۔ گویا چرچ آف انگلینڈ کے نزدیک گناہ اور ثواب کا تعین بھی سوسائٹی کے رجحانات دیکھ کر اقلیت اور اکثریت کے حوالہ سے ہونے لگا ہے۔ اور اب امریکہ میں بسنے والے یہودیوں کے اکثریتی فرقہ کے پادریوں نے ہم جنس پرستی (لواطت و مساحقت) کو مذہبی جواز فراہم کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اگر دو مرد آپس میں میاں بیوی کے طور پر رہنے کا فیصلہ کریں گے تو یہودی مذہبی راہنما باقاعدہ مذہبی رسوم ادا کر کے اور نکاح پڑھا کر انہیں میاں بیوی بنائیں گے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جمہوریت، آزادی اور سولائزیشن کا یہی فلسفہ آج ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ہم اپنے مذہبی احکام کو نظر انداز کرتے ہوئے
مغربی فلسفہ اور ثقافت کو قبول کرلیں،
مرد و عورت کے اختلاط میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کر کے انہیں آزادانہ میل جول کے مواقع فراہم کریں،
شادی میں والدین اور خاندانوں کے عمل دخل کو کم سے کم کردیں،
پردے کے شرعی احکام کو فرسودہ اقدار کی علامت قرار دے کر پس پشت ڈال دیں،
غیرت کو غیر مہذب رویہ اور طرز عمل سمجھتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کریں،
زنا کی شرعی حد کو ختم کریں،
اسقاط حمل کو قانونی حق کے طور پر تسلیم کریں،
مانع حمل ادویات اور طریقوں کو عمومی مہم کے طور پر رواج دیں،
سکولوں اور کالجوں میں جنسی تعلیم کا اہتمام کریں۔
مگر مغرب میں اس آزادی کا جو نتیجہ چرچ آف انگلینڈ اور امریکہ کے یہودی پادریوں کے مذکورہ فیصلوں کی شکل میں ہمارے سامنے آچکا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہم اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ہفت روزہ الہلال، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۷ اپریل ۲۰۰۰ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter