Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

14 - 43
ظالم چودھری اور اس کی پنچایت
اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر منظور ہونے کے بعد آزادی کے مغربی علمبرداروں نے اعلان کیا تھا کہ اب غلامی مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے اور دنیا میں آج کے بعد غلامی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اقوام متحدہ کے منشور میں شخصی آزادی کی ضمانت دیتے ہوئے غلامی کی ہر قسم کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے اور اقوام و ممالک کی آزادی و خود مختاری کی حرمت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں بیرونی مداخلت سے تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ لیکن شخصی اور قومی آزادی کا یہ اعلان اور گارنٹی نصف صدی گزرنے کے بعد آج بھی اس طرح تشنۂ تکمیل ہے جیسے اقوام متحدہ کے قیام کے وقت تھی۔ اور نہ صرف اقوام و ممالک کی آزادی و خود مختاری کو طاقتوروں کی طرف سے مجروح کرنے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ انسانوں کی خریدو فروخت اور ان سے جبری مشقت لینے کے عمل میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ صرف نام بدلے ہیں، اصطلاحات کا فرق پڑا ہے، طریق کار میں تبدیلی آئی ہے اور عنوانات نئے اختیار کر لیے گئے ہیں۔ ورنہ قوموں اور ملکوں پر طاقت کے زور سے قبضہ جمانے کا عمل بھی جاری ہے اور اشخاص و افراد کی خرید و فروخت کی منڈیوں کا حجم بھی کسی کمی سے روشناس نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر امریکا کے سب سے بڑے شہر نیو یارک میں ہے۔ ماضی میں امریکا غلامی کا ایک بہت بڑا مرکز رہا ہے۔ ایک دور میں افریقہ سے بحری جہاز بھر بھر کر غلاموں کو امریکا لایا جاتا تھا اور ان سے جبری مشقت لینے کے ساتھ ساتھ ان کی خرید و فروخت بھی ہوتی تھی۔ جانوروں کی طرح ان کے سودے ہوتے تھے اور جانوروں کی طرح ہی ان سے کام لیا جاتا تھا۔ پھر ایک دور ایسا آیا کہ جب اس جبر اور ظلم کے خلاف آواز اٹھی، احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اور رد عمل سامنے آیا تو غلامی کے خاتمہ کے لیے جدوجہد منظم ہوئی۔ اس طویل جدوجہد کے بعد انسان کی شخصی آزادی کا حق تسلیم کرتے ہوئے اس کے خاتمہ کا اعلان ہوا اور اس کے ساتھ ہی اقوام و ممالک کی آزادی کا حق بھی تسلیم کیا گیا اور اس کی گارنٹی کے لیے اقوام متحدہ وجود میں آئی۔ لیکن آج اقوام و ممالک کی آزادی کا جو حشر ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے امریکی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے اپنے ملک میں غلاموں اور غلامی کے خاتمے کا بدلہ ساری دنیا سے لینے کا تہیہ کر رکھا ہے اور انسانوں سے طاقت اور جبر کے ذریعہ کام لینے اور ان پر آقائی جتانے کے صدیوں پرانے جذبہ کی تسکین کے لیے پوری دنیا کو طاقت کی حکمرانی آماجگاہ بنا لیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا ایک ’’گلوبل ویلج‘‘ کی شکل اختیار کر گئی ہے اور فاصلے سمٹ جانے کی وجہ سے مشترک اور مربوط عالمی سوسائٹی کا ماحول بنتا جا رہا ہے۔ یہ بات کسی اور حوالہ سے درست ہو یا نہیں مگر اس حوالہ سے بالکل درست اور حقیقت ہے کہ ساری دنیا ایک ایسے گاؤں کی طرح دکھائی دے رہی ہے جس پر ایک طاقتور جاگیردار نے قبضہ جما لیا ہے اور قوت و طاقت کے بل پر اس نے گاؤں کی پوری آبادی کو یرغمال بنا رکھا ہے، کسی کو اس کے سامنے سر اٹھانے کی ہمت نہیں ہے، اس کے لٹھ بردار چاروں طرف گھوم رہے ہیں جن (کی نگرانی) سے کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی چار دیواری بچی ہوئی ہے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر جب میں سوچتا ہوں کہ امریکا میں غلامی کے جواز کے دور میں کسی بڑے جاگیردار یا نواب کے ڈیرے کا منظر کیا ہوگا؟ تو آج کی دنیا کا مجموعی حصہ دیکھ کر اس کا عملی نقشہ ذہن میں آنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی اور تخیل کی سکرین پر ایک واضح نقشہ فوراً نمودار ہو جاتا ہے۔
اقوام متحدہ دنیا بھر کے انسانوں کی شخصی آزادی اور اقوام و ممالک کی سالمیت و خود مختاری کا پرچم اٹھائے ہوئے نیو یارک میں ڈیرہ لگائے بیٹھی ہے۔ لیکن اس پرچم کے سائے میں قوموں اور ملکوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ایک منظر افغانستان میں دیکھا جا چکا ہے اور دوسرا منظر عراق میں دیکھنے کے لیے پوری دنیا آنکھیں جھپکے بغیر عراق کی طرف ٹکٹکی باندھے کھڑی ہے۔ ایک طرف فلسطین اور کشمیر کے باشندوں کا قتل عام جاری ہے اور ان کا حق خود ارادیت اسی اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تسلیم کیے جانے کے باوجود کے اس حق کو صرف اس لیے پس پشت ڈالا جا رہا ہے کہ ’’گلوبل ویلج‘‘ کے بڑے زمیندار کا مفاد اس میں نہیں ہے۔ یا ایسا کرنے سے اس کی چودھراہٹ اور انا کو کوئی خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہے۔ گاؤں میں دوسرے چودھری بھی ہیں مگر اس بڑے چودھری کے مقابلہ میں ان کے ڈیرے اجڑ چکے ہیں اور انہیں عافیت اسی میں نظر آرہی ہے کو وہ اس بڑے چودھری کے سامنے نگاہیں جھکا لیں اور مونچھیں نیچی کرلیں۔ بڑا چودھری ہاتھ میں لاٹھی لیے گاؤں کی پنچایت میں غصے سے بھرا ہوا کھڑا ہے۔ اس کے لٹھ بردار چاروں طرف لاٹھیاں اٹھائے گاؤں کے کسی بھی گھر میں داخل ہونے کے لیے اس کی انکھوں کے اشارے کے منتظر ہیں۔ چودھری اور کمیوں سمیت ساری آبادی تھرا رہی ہے اور بڑا چودھری منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے للکار رہا ہے کہ میں ’’گلوبل ویلج‘‘ کا بڑا چودھری ہوں۔ میں اس گاؤں کا بڑا مالک ہوں یہاں صرف میری مرضی چلے گی اور گاؤں کی پنچایت سمیت سب کو وہی کچھ کرنا ہوگا جو میں چاہوں گا۔
تاریخ کا کوئی بھی طالب علم تین سو سال قبل یورپ کے کسی جاگیردار کے ڈیرے اور ڈیڑھ سو سال قبل کے کسی امریکی زمیندار کی جاگیر کا منظر نگاہوں میں لا کر آج کے ’’گلوبل ویلج‘‘ کا مجموعی منظر دیکھ لے۔ اسے یورپی جاگیرداروں اور امریکی زمینداروں کے کردار، نفسیات اور طرز عمل کے بارے میں مزید کسی تحقیق و جستجو کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اقوام و ممالک کے اس منظر سے ہٹ کر اشخاص و افراد کی آزادی کے منظر پر بھی ایک نگاہ ڈالیں، آپ کو خلیج عرب کے بہت سے ملکوں میں اکیسویں صدی میں رہنے والے کروڑوں انسان ایسے نظر آئیں گے جو شہری آزادیوں، ووٹ اور بنیادی حقوق سے صرف اس لیے محروم ہیں کہ انہیں رائے اور ووٹ کا حق اور اپنے معاملات خود طے کرنے کا اختیار دینے سے اس خطہ میں ’’گلوبل ویلج‘‘ کے بڑے چودھری کے مفاد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی انسانوں کی خرید و فروخت کی صورت حال بھی دیکھ لیں کہ خود امریکا کے محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال چالیس سے ساٹھ لاکھ تک انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے جن میں زیادہ تعداد کمسن بچیوں کی ہوتی ہے جنہیں جبری مشقت اور عصمت فروشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
روزنامہ جنگ راولپنڈی 31 دسمبر 2002ء میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ کے حوالہ سے یہ ہوشربا انکشاف کیا گیا ہے کہ خرید و فروخت کا شکار ہونے والے ان مجبور افراد کو مغربی یورپ، عرب ممالک، تھائی لینڈ اور امریکا سمیت دنیا کے ہر خطے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان لاکھوں افراد میں زیادہ تعداد کمسن لڑکیوں کی ہوتی ہے جنہیں نائٹ کلبوں، ریستورانوں اور قحبہ خانوں میں عصمت فروشی کے لیے پیش کیا جاتا ہے اور انہیں ایسے تمام کاموں کے لیے کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔ ایسے افراد کا زیادہ تر تعلق جنوب مشرقی ایشیائی اور افریقی ممالک سے ہوتا۔ رپورٹ کے مطابق امریکا میں ’’غلامی اور جبری مشقت‘‘ کی اس ترقی یافتہ صورت کی روک تھام کے لیے متعدد قوانین نافذ کیے گئے ہیں اور ایک مستقل محکمہ بھی بنایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود امریکا اور یورپ سمیت پوری دنیا میں یہ کاروبار جاری ہے۔ یہ ہے اقوام متحدہ کی نصف صدی کی کارکردگی کا خلاصہ جس کی بنیاد پر اس کا اصرار ہے کہ پوری دنیا میں اس کی حکومت تسلیم کی جائے اور اس کے کسی فیصلے سے اختلاف یا انحراف کی جرأت نہ کی جائے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۱ جنوری ۲۰۰۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter