Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

39 - 43
توبہ، اصلاح، تلافی
سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراق پر حملہ کے موقع پر وہاں ناجائز کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کی رپورٹ غلط تھی اور انہیں عراق پر حملہ کے نتیجے میں داعش کے منظم ہو جانے کا اندازہ نہیں تھا۔ اس لیے وہ اس پر معذرت خواہ ہیں۔ ٹونی بلیئر عراق پر امریکی اتحاد کے حملہ کے قائدین میں سے تھے اور انہوں نے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور نائب صدر ڈک چینی کا ساتھ دے کر نہ صرف اس حملہ میں برطانوی فوجوں کو شریک کیا تھا بلکہ وہ اس کا جواز پیش کرنے اور اس کو ضروری قرار دینے کی عالمی سطح پر وکالت بھی کر رہے تھے۔ عراق پر ناجائز کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری اور ان کا ذخیرہ کرنے کا الزام تھا جس کی عراق کے صدر صدام حسین بار بار تردید کر رہے تھے۔ بلکہ عراق کی حدود میں ایسے ہتھیاروں کی موجودگی کا سراغ لگانے والے بھی اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے تھے مگر بش، ڈک چینی اور ٹونی بلیئر نے پوری دنیا میں آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ اور جب عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے، دس لاکھ سے زیادہ انسانوں کے قتل عام، اور وہاں اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر کے مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بھی کچھ نہیں ملا تو اب اسے رپورٹ کی غلطی قرار دے کر اور ’’سوری‘‘ کہہ کر معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ٹونی بلیئر کی اس معافی پر مجھے دو تین اور معافیاں یاد آرہی ہیں۔ معروف سائنس دان گلیلیو کے ساتھ چرچ نے جو سلوک کیا تھا اس پر صدیوں کے بعد سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ ہمیں اس غلطی کا اعتراف ہے۔ جبکہ گزشتہ صدی کے دوران لیبیا پر اٹلی کے استعماری قبضہ کے دوران وہاں کے عوام پر کیے جانے والے مظالم پر اٹلی کے وزیر اعظم نے چند سال قبل لیبیا کے دورہ کے موقع پر اسی طرح کا ’’سوری‘‘ کہا تھا۔ اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اگرچہ ’’سوری‘‘ کا لفظ کہنے کی زحمت نہیں فرمائی مگر یہ اعتراف کیا تھا کہ افغان جہاد کے بعد روسی فوجوں کے واپس چلے جانے پر افغان مجاہدین کے مختلف گروپوں کو کوئی باہمی نظم طے کرائے بغیر اسی طرح کھلا چھوڑ دینا ہماری غلطی تھی۔
ٹونی بلیئر کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ عراق پر حملے کے نتیجے میں ’’داعش‘‘ جیسی شدت پسند قوت ابھر آئے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر داعش منظم نہ ہوتی اور پورے مشرق وسطیٰ میں سب بالادست قوتوں کے لیے چیلنج نہ بن جاتی تو عراق پر حملہ درست تھا اور ممنوعہ ہتھیاروں کی موجودگی یا غیر موجودگی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ لیکن چونکہ نتائج توقع کے خلاف سامنے آئے ہیں اس لیے عراق پر حملہ کو غلطی کہنا اب مجبوری بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں ہیلری کلنٹن کے اعتراف کا پس منظر بھی اسی طرح کا ہے کہ افغانستان سے روسی افواج کی واپسی کے بعد افغان مجاہدین کے گروپوں کو آزاد چھوڑ دینا اور ان کے مستقبل کا کوئی نظم اور ایجنڈا طے کیے بغیر ان سے لا تعلق ہو جانا اصلاً تو اس لیے تھا کہ یہ آپس میں لڑتے رہیں اور خطے میں ہماری چودھراہٹ اور بالادستی قائم رہے۔ مگر اس بات کی توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ درمیان میں ’’طالبان‘‘ اٹھ کھڑے ہوں گے جو سارا مزہ کرکرا کر دیں گے اور بجائے لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس لیے اب یہ احساس ابھر رہا ہے کہ انہیں اس طرح کھلا چھوڑ دینا غلطی تھی۔ ہیلری کلنٹن کے اعتراف اور ٹونی بلیئر کی ’’سوری‘‘ دونوں کے پیچھے یہی نفسیات کارفرما ہے کہ چونکہ نتائج توقع کے خلاف سامنے آئے ہیں اس لیے اپنے اقدامات کو ’’غلطی‘‘ تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مگر کیا صرف غلطی کا اعتراف یا سوری کہہ دینا کافی ہے، اور کیا ایسا کرنے والوں پر اپنی غلطیوں کے نقصانات کی تلافی کے حوالہ سے کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ مغربی معاشرہ میں ’’تھینکس‘‘ اور ’’سوری‘‘ کی روایت ایک اچھی بات سمجھی جاتی ہے مگر اس حوالہ سے دو باتیں میرے ذہن میں اکثر گھومتی رہتی ہیں جن کا بسا اوقات اظہار بھی کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ آپس میں ایک دوسرے کو ’’تھینکس‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور ’’سوری‘‘ بھی کہا جاتا ہے او راسے تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے، مگر اپنے مالک و خالق رب العالمین کو تھینکس اور سوری کہنے کا تصور ہی مغربی معاشرہ میں ناپید ہوگیا ہے جو اس سوسائٹی کا اصل المیہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے کے بعد بھی محض ’’سوری‘‘ کہہ کر معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے جس کے نقصان کا سارا بوجھ اسی غریب کے کھاتے میں پڑ جاتا ہے، جبکہ آسمانی تعلیمات اس سے مختلف بات کرتی ہیں۔ بائبل میں توبہ اور معافی کو ’’لوٹ آنے‘‘ اور ’’رجوع کرنے‘‘ کے مفہوم میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی غلطی کے اعتراف کے ساتھ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی بھی اس کا حصہ ہے۔ جبکہ قرآن کریم نے اسے زیادہ وسیع انداز میں بیان کیا ہے۔ بنی اسرائیل کے اس رویے کا ذکر کرتے ہوئے کہ وہ تورات کے بہت سے احکام کو چھپا لیتے ہیں اور بیان نہیں کرتے، قرآن کریم نے کہا ہے کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت کے مستحق ہیں مگر جو لوگ توبہ کر لیں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ جبکہ توبہ کے لیے سورۃ البقرہ کی آیت 160 میں تین لفظ استعمال کیے گئے ہیں تابوا واصلحوا و بینوا (۱) اپنے طرز عمل سے توبہ کر لیں (۲) اپنے رویے کی اصلاح کر لیں (۳) گزشتہ غلطی کی تلافی کرتے ہوئے چھپائے ہوئے احکام کو بیان کرنا شروع کر دیں۔
اس لیے جب تک ٹونی بلیئر اور ہیلری کلنٹن غلطی کے اعتراف کے بعد اس غلطی کے نقصانات کی تلافی اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کا راستہ نہیں کرتے ان کے ایسے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
یکم نومبر ۲۰۱۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter