Deobandi Books

مغربی فلسفہ

ن مضامی

5 - 43
اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر جناب بل کلنٹن نے اپنے حالیہ دورۂ چین کے دوران بیجنگ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق پوری دنیا کے بنیادی حقوق ہیں۔ امریکہ کسی بھی ملک پر اپنے نظریات نہیں ٹھونسنا چاہتا، البتہ کئی حق ایسے ہیں جن کا بین الاقوامی سطح پر احترام کیا جانا چاہیے۔ ہر ملک میں لوگوں کو عزت کے ساتھ رہنے، اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے، اور سیاسی آزادی کا حق ہونے کے ساتھ مذہبی آزادی بھی ہونی چاہیے۔ یہ امریکہ یا یورپ کے حقوق نہیں بلکہ ہر جگہ کے لوگوں کے بنیادی حقوق ہیں۔
ادھر مشرقی امور کے بارے میں امریکی نائب وزیرخارجہ جناب رائیل نیومن نے واشنگٹن میں ’’سی آئی ایس آئی‘‘ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسی موضوع پر اسلام کے حوالہ سے گفتگو کی ہے اور کہا ہے کہ اسلام کے بارے میں امریکہ کو کوئی خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ امریکہ کا داخلی مسئلہ بھی ہے، مسلمان ایک بڑی تعداد میں امریکہ میں رہتے ہیں اور اسلام امریکہ میں تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق اور بعض عالمی اقدار تمام اقوام میں مشترک ہیں، ان میں امریکہ کی اجارہ داری نہیں ہے، البتہ امریکہ ان کا علمبردار ضرور ہے۔
انسانی حقوق کے بارے میں دو ذمہ دار امریکی راہنماؤں کے یہ خیالات امریکی پالیسیوں میں نئے رجحانات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اور صدر کلنٹن نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد نئے حقوق کو تسلیم کر لینے کی جو بات کی تھی شاید اس کی طرف پیش رفت کی کوئی عملی صورت سامنے آتی دکھائی دے رہی ہے۔
اب تک امریکہ کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کی طرف سے کی گئی اس کی تشریحات کو حرف آخر قرار دے کر امریکہ پوری دنیا سے انہیں من و عن تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتا آرہا ہے۔ امریکہ اور روس کے کیمپ کے دیگر ممالک کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات، بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی امداد و تعاون کی پالیسی طے کرنے میں یہی نکتہ محور بنا رہا ہے۔ مگر اب امریکی راہنما کہہ رہے ہیں کہ انسانی حقوق اور عالمی اقدار پر ان کی اجارہ داری نہیں ہے اور وہ کسی ملک پر اپنے نظریات ٹھونسنا نہیں چاہتے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے متعدد اداروں کی قراردادوں کے حوالہ سے انسانی حقوق کا موجودہ فریم ورک جس فلسفۂ حیات کی نمائندگی کرتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ عالم اسلام کے لیے قابل قبول نہیں ہے بلکہ چین بھی اسے پوری طرح تسلیم کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا اور اس کے بارے میں وہ اپنے تحفظات رکھتا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ اب سے نصف صدی قبل جن حالات میں ترتیب پایا تھا وہ آج سے قطعی مختلف حالات تھے۔ پوری دنیا پر مغرب کی اجارہ داری تھی، عالم اسلام کے بیشتر ممالک استعماری قوتوں کے زیر تسلط تھے، اور اس وقت کی عالمی قوتوں نے مشرقی یورپ اور مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی الٹ پلٹ کے ساتھ آپس میں جو بندر بانٹ کر لی تھی اس کے بعد عالم اسلام اجتماعی طور پر کوئی آواز بلند کرنے کے قابل نہیں رہ گیا تھا۔ اسی طرح چین کو بھی عالمی بساط پر کوئی مؤثر حیثیت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے مغربی اقوام نے اپنی اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخصوص فلسفۂ حیات کو انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کی شکل دی اور دنیا کی دیگر بے بس اقوام سے اس پر دستخط حاصل کروا لیے جو اب تک ان قوموں اور ملکوں کے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں۔ اور امریکہ اسی منشور کی آڑ میں دنیا کے جس ملک اور قوم کے خلاف اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کرنا چاہتا ہے، کامیابی کے ساتھ کر لیتا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ انسانی حقوق کے حوالہ سے مغربی ممالک نے ہمیشہ دہرا معیار رکھا ہے۔ کشمیر، فلسطین، بوسنیا، چیچنیا، اور کوسووو میں انسانی حقوق کی پامالی امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی وہ توجہ کبھی حاصل نہیں کر سکی جو ان کے اپنے مفادات کے علاقوں میں ہمیشہ امتیازی حیثیت کی حامل رہی ہے۔ ہمارے نزدیک انسانی حقوق کا مغربی فلسفہ، اقوام متحدہ کا منشور، اور اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کی قراردادوں کا موجودہ فریم ورک ہی سرے سے متنازعہ ہے۔ مثلاً نکاح و طلاق اور خاندانی نظام کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر نے جو اصول بیان کیے ہیں، قرآنی تعلیمات ان کو قبول نہیں کرتیں۔ اور اس چارٹر کو من و عن قبول کرنے سے کوئی بھی مسلمان فرد، خاندان، یا قوم بنیادی اسلامی تعلیمات سے منحرف قرار پاتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی دفعات اس چارٹر میں ایسی موجود ہیں جو اسلامی احکام و قوانین کی نفی کرتی ہیں۔ اور اب جبکہ عالم اسلام کے بیشتر ممالک آزاد ہو چکے ہیں، ان میں سے بہت سے ملکوں میں اسلامی نظام کے نفاذ اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری کی تحریکات مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں، دنیا کے نقشے پر بہت سی مسلم حکومتوں کے گریز اور تذبذب کے باوجود عالم اسلام ایک واضح بلاک کی شکل اختیار کرتا نظر آرہا ہے، اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد طاقت کے عالمی توازن میں بھی عالم اسلام کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہوگئی ہے۔ اس صورتحال میں اقوام متحدہ کا منشور اور اس کی آڑ میں امریکہ و دیگر مغربی ممالک کا طرز عمل پہلے سے زیادہ متنازعہ ہوتا جا رہا ہے، اور عالم اسلام کی دینی تحریکات اور اسلامی عناصر اس کی مسلسل نفی کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت اب تک جو اقوام متحدہ کے منشور اور اس کے دیگر متعلقات پر دستخط کرنے سے گریزاں ہے اس کا پس منظر بھی یہی ہے۔
تین سال قبل اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقع پر ملیشیا کے وزیراعظم جناب مہاتیر محمد نے مسلم ممالک کو تجویز دی تھی کہ وہ انسانی حقوق کے بارے میں مغربی ممالک کے دہرے معیار اور طرزعمل کے خلاف احتجاج کے طور پر اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کا بائیکاٹ کریں۔ لیکن ایک دو کے سوا کسی مسلم حکومت نے اس تجویز کا مثبت جواب نہیں دیا۔ اس موقع پر جناب مہاتیر محمد نے اقوام متحدہ کے منشور پر نظر ثانی کا مطالبہ بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ بدلتے ہوئے حالات اور نئے عالمی حقائق کے پیش نظر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کو ازسرِنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ مطالبہ بھی صدا بصحراء ثابت ہوا تھا۔
ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے عالمی قوتوں کو گزشتہ نصف صدی کے دوران رونما ہونے والے نئے عالمی حقائق کا احساس دلا دیا ہے اور انہیں یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ جب ظاہری قوت کے اسباب و وسائل پر مکمل کنٹرول اور بھرپور ناکہ بندی کے باوجود ایک مسلم ملک کو ایٹمی قوت بننے سے نہیں روکا جا سکتا تو نظریے اور فلسفے کے محاذ پر مسلم امہ کو شکست دینا کیسے ممکن ہوگا؟ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت اسلامیہ کی عالمی قیادت بھی ان تبدیلیوں کو محسوس کرے اور نئے عالمی حقائق کے ادراک سے پیدا ہونے والی صورتحال سے استفادہ کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔
ہم گزارش کریں گے کہ فوری طور پر مسلم سربراہ کانفرنس کا اجلاس طلب کیا جائے جو اقوام متحدہ کے تنظیمی ڈھانچے، انسانی حقوق کے منشور، اور اقوام متحدہ کی پالیسیوں کی موجودہ ترجیحات پر خود نظر ثانی کر کے واضح اور دوٹوک ترامیم اور تجاویز مرتب کرے اور انہیں عالمی ادارے سے تسلیم کرانے کے لیے پورا عالم اسلام متحد ہو جائے۔ کیونکہ اس کے بغیر نئے حالات میں عالم اسلام اپنا عالمی کردار مؤثر طور پر ادا نہیں کر پائے گا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۱۵ جولائی ۱۹۹۸ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے جنگ کی خواتین عالمی کانفرنس 1 1
3 نکاح ۔ سنت نبویؐ یا محض ایک سوشل کنٹریکٹ 2 1
4 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی 3 1
5 امریکی جرائم اور شہر سدوم 4 1
6 اقوام متحدہ کا جانبدارانہ منشور 5 1
7 ہم جنس پرستی ۔ اسلامی تعلیمات اور مغربی فلسفہ 6 1
8 اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات 7 1
9 امریکہ کا خدا بیزار سسٹم 8 1
10 دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ 9 1
11 ’’اسامہ بن لادن‘‘ لندن میں 10 1
12 مغربی استعمار کی پرتشدد تاریخ 11 1
13 مغرب کے تین دعوؤں کی حقیقت 12 1
14 جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام 13 1
15 ظالم چودھری اور اس کی پنچایت 14 1
16 اسلام اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ میں جرمنی کا تعاون 15 1
17 ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘ 16 1
18 اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم 17 1
19 عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت 18 1
20 برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات 19 1
21 اسلام کی دعوت اور پیغام 19 20
22 جہاد اور دہشت گردی میں فرق 19 20
23 ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل 20 1
24 مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ 21 1
25 حالات زمانہ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل 22 1
26 روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق 23 1
27 امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار 24 1
28 عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک 25 1
29 مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور 26 1
30 عورت کی معاشرتی حیثیت اور فطرت کے تقاضے 27 1
31 اسقاطِ حمل کا رجحان 27 30
32 شادی کے بغیر جنسی تعلق 27 30
33 عورت کی ملازمت اور کاروبار 27 30
34 شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ 28 1
35 حدیث وسنت اور جدید تشکیکی ذہن 29 1
36 امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی 30 1
37 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر 31 1
38 انسانی حقوق کا مغربی پس منظر 31 37
39 انقلابِ فرانس 31 37
40 اقوام متحدہ کا قیام 31 37
41 اقوام متحدہ کے بارے میں عالمِ اسلام کے تحفظات 31 37
42 اقوام متحدہ کا عالمی منشور 31 37
43 آخری مستند متن ۔ محکمۂ اطلاعاتِ عامہ اقوام متحدہ، نیویارک 31 37
44 دفعہ نمبر ۱ 31 37
45 دفعہ نمبر ۲ 31 37
46 دفعہ نمبر ۳ 31 37
47 دفعہ نمبر ۴ 31 37
48 دفعہ نمبر ۵ 31 37
49 دفعہ نمبر ۶ 31 37
50 دفعہ نمبر ۷ 31 37
51 دفعہ نمبر ۸ 31 37
52 دفعہ نمبر ۹ 31 37
53 دفعہ نمبر ۱۰ 31 37
54 دفعہ نمبر ۱۱ 31 37
55 دفعہ نمبر ۱۲ 31 37
58 دفعہ نمبر ۱۳ 31 37
59 دفعہ نمبر ۱۴ 31 37
60 دفعہ نمبر ۱۵ 31 37
61 دفعہ نمبر ۱۶ 31 37
62 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
63 دفعہ نمبر ۱۸ 31 37
64 دفعہ نمبر ۱۹ 31 37
65 دفعہ نمبر ۲۰ 31 37
66 دفعہ نمبر ۲۱ 31 37
67 دفعہ نمبر ۲۲ 31 37
68 دفعہ نمبر ۲۳ 31 37
69 دفعہ نمبر ۲۴ 31 37
70 دفعہ نمبر ۲۵ 31 37
71 دفعہ نمبر ۲۶ 31 37
72 دفعہ نمبر ۲۷ 31 37
73 دفعہ نمبر ۲۸ 31 37
74 دفعہ نمبر ۲۹ 31 37
75 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
76 انسانی حقوق کے مغربی تناظر اور اسلامی تناظر کا فرق 31 37
77 اقوام متحدہ کے منشور کا مغربی پسِ منظر 31 37
78 مرد اور عورت میں مساوات 31 37
79 پوری نسل انسانی کے لیے مشترکہ معیار 31 37
80 اقوام متحدہ کے منشور کا دفعہ وار تجزیہ 31 37
81 دفعہ نمبر ۱ تا ۳ ۔ اقوام متحدہ کی دو رُخی پالیسی 31 37
82 دفعہ نمبر ۴ ۔ غلامی کا مسئلہ 31 37
83 بین الاقوامی معاہدات اور اسلام 31 37
84 دفعہ نمبر ۵ ۔ اسلامی حدود و تعزیرات پر اعتراض کی بنیاد 31 37
85 دفعہ نمبر ۶ تا ۱۵ 31 37
86 دفعہ نمبر ۱۶ ۔ خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات 31 37
87 مسلم حکمرانوں کا طرز عمل 31 37
88 امتیازی قوانین اور اسلام 31 37
89 دفعہ نمبر ۱۷ 31 37
90 دفعہ نمبر ۱۸ و ۱۹ ۔ آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ رائے 31 37
91 پاکستان کا اسلامی تشخص 31 37
92 قادیانی مسئلہ 31 37
93 آزادیٔ رائے کی حدود 31 37
94 دفعہ نمبر ۲۰ ۔ معاشرہ کی سیاسی گروہ بندی 31 37
95 دفعہ نمبر ۲۱ ۔ اسلام میں حقِ حکمرانی کی بنیاد 31 37
96 خلافت کا دستوری تصور 31 37
97 موجودہ دور میں خلافت کا انعقاد 31 37
98 خلافت و امامت کا فرق 31 37
99 دفعہ نمبر ۲۲ تا ۲۴ 31 37
100 دفعہ نمبر ۲۵ ۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم 31 37
101 رفاہی ریاست کی بنیادیں 31 37
102 آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ 31 37
103 زنا کا چور دروازہ 31 37
104 دفعہ نمبر ۲۶ تا ۲۹ 31 37
105 دفعہ نمبر ۳۰ 31 37
106 توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ 32 1
107 مغربی ایجنڈا اور جمہوریت 33 1
108 برطانوی اسکولوں میں بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی 34 1
109 مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی 35 1
110 مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار 36 1
111 اسلام اور مغرب کی کشمکش 37 1
112 بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت 38 1
113 توبہ، اصلاح، تلافی 39 1
114 اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت 40 1
115 حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں: 40 1
116 مغربی ممالک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص 41 1
117 امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے خیالات 42 1
118 اکبر بادشاہ کا دینِ الٰہی اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد، آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں 43 1
Flag Counter