منہ لگاکر پینے کا حکم :
ابن حزم ظاہری : حرام ہے ۔
امام مالک : بلاکراہت جائز ہے ۔
ائمہ ثلاثہ :مکروہ تنزیہی ہے ۔(فتح الباری :10/91) (الکوکب الدری علی الترمذی :3/42)
منہ لگاکر پینےکی ممانعت کی وجوہات :
(1)پانی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے جس کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ پانی میں موجود کوئی موذی چیز یا کچرا وغیرہ پانی کے ساتھ منہ میں جاسکتا ہے ، جیسا کہ منقول ہے کہ ایک شخص کے پیٹ میں اس طرح کرنے سے سانپ چلا گیا تھا ۔ شَرِبَ رَجُلٌ مِنْ سِقَاءٍ فَانْسَابَ فِي بَطْنِهِ جَانٌّ (مصنف ابن ابی شیبہ : 24127)
(2)اِس طرح سے پانی پینے کی وجہ سے مشکیزے یا بوتل وغیرہ کے منہ میں بدبو ہوجاتی ہے ، جو دوسروں کے لئے باعث اذیت ہوتا ہے ۔لِأَنَّ ذَلِكَ يُنْتِنُهُ۔(مستدرک حاکم : 7211)
(3)اِس طرح کرنے سے پانی کے گرنے اور پینے والے کے کپڑے گیلے ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے ۔يَتَرَشَّشَ الماءُ عَلَى الشَّارِبِ لِسَعَةِ فَمِ السِّقاء.(النھایۃ لابن الأثیر :2/82)
(4)پانی پریشر کے ساتھ پیٹ میں جانے کی وجہ سے دردِ جگر ہوسکتا ہے ۔(تحفۃ الالمعی :5/230)
(5)یہ عمل معدہ کے لئے بھی نقصان دہ ہے ۔۔(تحفۃ الالمعی :5/230)
(6)اِس طرح پینے سے پھندا لگنے(سانس بند ہوجانے ) کا قوی امکان ہوتا ہے ۔(انتہاب المنن :1/223)
کیا بوتل میں منہ لگاکر پینا بھی اختناث الأسقیۃ میں داخل ہے ؟
احادیث ِ طیبہ میں اگر چہ مشکیزہ میں منہ لگاکر پینے کا تذکرہ ہے لیکن اُس کی کراہت کی مندرجہ بالا وجوہات کو دیکھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کراہت آجکل کی بوتلوں میں منہ لگاکر پانی پینے میں ہونی چاہیئے ۔ بالخصوص جبکہ وہ بوتل گھر ، آفس یا دوکان وغیرہ میں کئی افراد کے درمیان مشترکہ طور پر استعمال کی جارہی ہو ۔