” كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ “ کا مطلب :
حدیث کے مذکورہ جملوں کی تشریح سے قبل وہ دونوں اختلاف ذہن نشین کرلیں جو ما قبل میں گزر چکے ہیں :
پہلا اختلاف : حضرات احناف کے نزدیک خمر صرف انگور سے بنتی ہے جبکہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ہر نشہ آور چیز کو خمر کہاجاتا ہے ۔
دوسرا اختلاف :اشربہ اربعہ کے علاوہ دیگر مُسکِرات یعنی گندم ، چاول شہد وغیرہ سے بننے والی شرابیں امام محمد اور ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مطلقاً حرام ہیں خواہ مُسکِر ہوں یا نہیں ، لیکن حضرات شیخین صرف مقدارِ مُسکِر کو حرام قرار دیتے ہیں ۔
اب حدیث کے جملوں کی تشریح ملاحظہ کیجئے :
شیخین : ہر وہ چیز جو نشہ آور ہو وہ خمر ہی کی طرح ہے یعنی خمر حکمی ہے اورحرام ہے ، بشرطیکہ
بالفعل نشہ آور ہو ، بالقوۃ نشہ آور ہو تو حرام نہیں ۔
امام محمد : ہر وہ چیز جو نشہ آور ہو ، وہ خمر ہی کی طرح ہے یعنی خمر حکمی ہے اورمطلقاًحرام ہے ، خواہ
بالقوۃ نشہ آور ہو یابالفعل ۔
ائمہ ثلاثہ : ہر وہ چیز جو بالقوۃ یا بالفعل نشہ آور ہو ، وہ بعینہٖ خمر ہے اور حرام ہے ۔
گویا احناف کے نزدیک اِس جملے میں مُسکر چیزوں کا حکم بیا ن کیا گیا ہے کہ وہ خمر ہی کی طرح حرام ہیں جبکہ وہ بالفعل نشہ آور ہوں ،عند الشیخین اور بالقوۃ یا بالفعل نشہ آور ہوں عند محمد ۔ اور ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اِس جملے میں ماہیتِ خمر کو بیان کیا گیا ہے یعنی خمر کی ماہیت یہ ہے کہ وہ نشہ آور ہو ۔(تحفۃ الالمعی :5/211، بتغیر یسیر )