” فَإِنْ تَابَ لَمْ يَتُبِ اللَّهُ عَلَيْهِ“ کا مطلب :
حدیث میں آتا ہے :” فَإِنْ تَابَ لَمْ يَتُبِ اللَّهُ عَلَيْهِ “کہ شراب پینے والااگر چوتھی مرتبہ توبہ کو توڑ کر توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کی توبہ قبول نہیں فرمائیں گے ، حالآنکہ یہ ترمذی ہی کی روایت : مَا أَصَرَّ مَنْ اسْتَغْفَرَ وَلَوْ فَعَلَهُ فِي اليَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةً (رقم: 3559) کے خلاف ہے ۔پس حدیث کس مطلب کیا ہوگا ۔
اِس میں اُس شخص کی عدمِ توفیقِ توبہ کا بیان ہے یعنی پھر اُس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے توبہ کی توفیق ہی نہیں ملے گی ، پس گو یا ” فَإِنْ تَابَ “ کا مطلب ” أَراد التّوبة “ کے ہونگے ۔
یہ تشدید اور تہدید پر محمول ہے ، یعنی تخویف و اِنذار کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ شخص اِس قابل نہیں کہ اُس کی توبہ قبول کی جائے ۔(انتہاب المنن :1/178)
” مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ “ کا مطلب :
حضرات شیخین :حدیث میں بطور احتیا ط کے سدِّ ذرائع کے طور پر قلیل حصہ کو حرام کہا گیا ہے ،
گویا ممانعتِ حقیقی نہیں احتیاطی مراد ہے ۔
امام محمد اور ائمہ ثلاثہ :ممانعتِ حقیقی مراد ہے ، یعنی قلیل مقدار بھی حرام ہے ۔(تحفۃ الالمعی :5/213)
” الخَمْرُ مِنْ هَاتَيْنِ الشَّجَرَتَيْنِ النَّخْلَةُ وَالعِنَبَةُ “ کا مطلب :
یہ جملہ ائمہ ثلاثہ کی دلیل ہے کیونکہ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھجور اور انگور دونوں ہی سے بننے والی شراب خمر کہلاتی ہے ۔ احناف چونکہ صرف انگوری شراب کو خمر کہتے ہیں ، اِس لئے یہ حدیث بظاہر احناف کے خلاف ہے ۔ احناف کی جانب سے اِس حدیث کی توجیہات مندرجہ ذیل ہیں: