اشربہ ثلاثہ کے پینے کے بارے میں فقہاء کرام کا اختلاف :
احناف :حرام ہے ، لیکن خمر کی طرح حرام قطعی نہیں ۔
ائمہ ثلاثہ :حرام ہے اور ان کی حرمت خمر کی طرح ہے ، اِس لئے کہ یہ بھی خمر ہی ہیں ۔
امام اوزاعی :طِلاء اور نقیع الزّبیب مباح ہیں ۔
شریک بن عبد اللہ :سَکَر مباح ہے ۔(الدر المختار:6/ 452) (الالمعی :5/205)
(2)دوسرا حکم : اشربہ ثلاثہ پینے سے حد لگے گی جبکہ مُسکر یعنی نشہ آور ہوں:
اشربہ ثلاثہ کا دوسرا حکم یہ ہے کہ ان کے پینے سے حد اُس وقت لگے گی جبکہ ان کے پینے سے نشہ آئے ۔
احناف :نشہ آنے کی صورت میں حد لگے گی ۔
ائمہ ثلاثہ :ایک قطرہ بھی پی لے تو حد لگے گی ، خواہ نشہ چڑھے یانہیں ۔(البنایۃ :12/367)
(3)تیسرا حکم :اشربہ ثلاثہ کو حلال قرار دینے والا کافر نہیں ۔
(4)چوتھا حکم :اشربہ ثلاثہ نجس ہیں ۔
امام صاحب غلیظہ اور صاحبین خفیفہ قرار دیتے ہیں ، راجح اور مُفتیٰ بہٖ غلیظہ کا قول ہے ۔ (الدر المختار:1/320)
(5)پانچواں حکم:اشربہ ثلاثہ مالِ متقوّم ہیں ۔
امام ابوحنیفہ :مالِ متقوّم ہیں پس ان کی بیع جائز اورمُتلِف و غاصب ضامن ہوگا ۔
صاحبین اور ائمہ ثلاثہ :مالِ غیر متقوّم ہیں ، لہٰذا ضامن نہ ہوگا ۔(البنایۃ :12/368)
بیع کے مسئلے میں امام صاحب کے قول پر اور ضمان کے مسئلے میں صاحبین کے قول پر فتویٰ ہے ۔یعنی بیچنا جائز لیکن مکروہ ہے اور مُتلِف یا غاصب ضامن نہیں ہوگا ، بشرطیکہ اُس نے اچھی نیت سے ہلاک کیا ہو ۔(رد المحتار :6/454)