(1)پہلا حکم :حرام لعینہٖ ہے ۔
جمہور:مطلقاً حرام لعینہٖ ہے یعنی قلیل ہو یا کثیر، مُسکرہو یا غیر مُسکر،سب حرام ہے ۔
بعض معتزلہ :خمر حرام ہے جبکہ کثیر اور مُسکر یعنی نشہ آورہو ، یعنی حرام لغیرہٖ ہے ۔(الدر المختار :6/452)
(2)دوسرا حکم : نجس ہے اوربالاتفاق نجاستِ غلیظہ ہے ۔
(3)تیسر حکم :اِس کو حلال قرار دینے والا کافر ہے ۔
(4)چوتھا حکم : خمر مسلمان کے حق میں مالِ غیر متقوّم ہے ۔
مسلمان کے حق میں مال ہے ، لیکن متقوّم نہیں اور ذمّی کے حق میں خنزیر کی طرح مالِ متقوّم ہے ۔
(5)پانچواں حکم : خمر کا مُتلِف یا غاصب ضامن نہیں ۔
یعنی کسی مسلمان کی ملکیت میں خمر ہو اور کوئی (مسلمان یا ذمّی )اُس کو ہلاک یا غصب کرلے تو وہ ضامن نہیں ہوگا ، اِس لئے کہ خمر مسلمان کے حق میں مالِ غیر متقوِّم ہے ۔اور اگر کسی ذمّی کی ملکیت میں خمر ہو اور کوئی (ذمّی یا مسلمان )اُس کو ہلاک یا غصب کرلے تو وہ ضامن ہوگا ۔
(6)چھٹا حکم :مسلمان کے لئے اِس کی خرید و فروخت اور لینا دینا جائز نہیں ۔
(7)ساتواں حکم :اِس سے کسی بھی طرح کا نفع حاصل کرنا جائز نہیں ۔
البتہ تخلیل (سرکہ بنانے )کے لئے اور اضطرار کی حالت میں دوائی کے طور پر یا پیاس بجھانے کے لئے صرف بقدرِ ضرورت استعمال کرنا جائز ہے ۔
(8)آٹھواں حکم :اِس کے پینے والے پر حد لگائی جائے گی ، اگرچہ قلیل اور غیر مُسکر ہی کیوں نہ ہو ۔
(9)نواں حکم :خمرکو دوائی کے طور پر علاج کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ۔
البتہ اضطرار کی حالت میں کرسکتے ہیں یا نہیں ، اِس میں اختلاف ہے :