آپس میں لڑرہے ہیں، کوئی حبشی پر عاشق ہے، کوئی ترکی پر عاشق ہے، کوئی ہندی پر عاشق ہے اور کوئی قیچاقی پر عاشق ہے جو ترکوں کی ایک قوم ہے لیکن مولانا رومی فرماتے ہیں ؎
ہندی و قیچاقی و ترکی و حبش
جملہ یک رنگ اند اندر گور خش
ہندی، قیچاقی، ترکی اور حبشی کو قبر میں جا کر دیکھ لو سب مٹی ہوجاتے ہیں، پھر انہیں پہچان نہ سکو گے کہ کون حبشی کالی تھی اور کون مصر کی گوری تھی۔ کیا مٹی پر مرتے ہو۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎
ایں شراب و ایں کباب و ایں شکر
خاک رنگین است و نقشیں اے پسر
اے دنیا والو! یہ شراب کیا ہے، کباب اور شکر کیا ہے، اللہ نے خاک کو رنگین کردیا ہے، مختلف نقش و نگار بنا دیے ہیں ورنہ یہ سب مٹی ہیں، اپنی مٹی کو مٹی پر مٹی مت کرو، ان مٹی کے کھلونوں پر اپنی مٹی کو مٹی مت کرو، اپنی مٹی کو خالقِ افلاک پر فدا کرو تاکہ تمہاری خاک رشکِ افلاک ہوجائے اور مٹی کے حسینوں کے عشق میں مبتلا لوگ تمہارے پاس سکون لینے آئیں، تمہارے پیر دبائیں اور تم سے دعائیں کرائیں۔
اب بمبئی والے ڈینٹسٹ کا قصہ بھی پورا سن لو کہ اس ڈینٹسٹ نے میری بات مان لی، ان کی سمجھ میں بات آگئی اور اس کے بعد انہوں نے کبھی کسی لڑکی کے گال نہیں پکڑے۔ عورتوں کو دیکھنے کے لیے ایک ادھیڑ عمر کی ڈاکٹرنی رکھ لی، مریض عورتوں کو وہی دیکھتی تھی۔ اگر پیر اور مرشد نہ ملے تو آدمی کو کچھ پتا نہیں چلتا، نفس اس کو اندھا رکھتا ہے، یہ مٹی کے کھلونے اس کو خراب وبرباد کردیتے ہیں اور اس کو پتا ہی نہیں ہوتا، احساسِ بربادی بھی نہیں رہتا۔حسن میں وہ جادو ہوتا ہے کہ جب انسان کسی پر عاشق ہوتا ہے تو اسے اپنی بربادی کا احساس بھی نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس چکر میں کتنے لوگ مرگئے، لیلاؤں کی خاطر مولیٰ کے بغیر جب قبر میں گئے تب آنکھ کھلی، مگر اس وقت آنکھ کھلنا مفید نہیں، جیتے جی آنکھ کھولو اور مولیٰ کے ساتھ دل و جان لگاؤ، اگر لیلاؤں سے زیادہ مزہ نہ پاؤ تو آکراختر سے شکایت کرو۔ جیسے