ایک سورج دوں گا، مگر میرا بندہ جس نے خونِ تمنا پیتے پیتے سارا دل لال کردیا اس کو اتنے آفتاب دوں گا کہ اس کے دل کا کوئی افق آفتاب سے خالی نہ رہے گا، پھر دیکھو اس کی مستیاں۔ ان لیلاؤں کی مستیوں کا کچھ بھروسہ نہیں، آج تو مستیاں ہیں اور کل ستّر اسّی سال کی عمر میں گال پچک گئے، دانت باہر آگئے، دانتوں میں پائیریا ہوگیا، منہ سے بدبو آرہی ہے، بتیسی باہر نکال کر ٹوتھ پیسٹ کررہی ہے، ان کی کالی زُلفیں سفید ہوگئیں، کالی چوٹیاں بڈھے گدھے کی دُم بن گئیں اور آخر میں کیا ہوتا ہے کمر ٹیڑھی ہوگئی ؎
کمر جھک کے مثل کمانی ہوئی
کوئی نانا ہوا کوئی نانی ہوئی
اس سے پوچھتے ہو کہ نانا ابّا! آپ کا اسم گرامی، وہ بھی کہتا ہے کہ پہلے مجھے کس قدر بری نظر سے دیکھتا تھا، جماعت کی نمازیں نہیں پڑھتا تھا اور میرے تخیل سے ناپاک رہتا تھا، تو نے میری وجہ سے مولیٰ کو چھوڑا، تو بہت کمینہ ہے، بے غیرت ہے۔ اب اسے گالیاں ملتی ہیں۔ عاشقوں کو ان معشوقوں کی گالیاں ملتی ہیں، اور اللہ کے عاشقوں کو ہر طرف سے دعائیں ملتی ہیں۔ میں اپنی ستّر سالہ زندگی کا آپ کو نچوڑ اور جوس پلارہا ہوں کہ بس ایک کام کرلو کہ وہ کام نہ کرو جس کام سے اللہ ناخوش ہو ، ہمت کرکے وہ کام چھوڑ دو، لیلاؤں کے لیے تو بڑے بڑے غم اٹھائے ہیں، اب اللہ کے لیے بھی غم اٹھانے کی عادت ڈال لو۔ میرے احباب میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دنیاوی معشوقوں کے لیے راتوں کو جاگے ہیں، تارے گنے ہیں، اختر شماری کی ہے، آہ و زاری کی ہے، بے قرار ی کی ہے،ان سے کہتا ہوں کہ اللہ کے نام پر بھی تو کچھ غم اُٹھاؤ ورنہ قیامت کے دن اگر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم نے دل پر کس کے لیے غم اُٹھایا؟ لونڈوں کے لیے یا لونڈیوں کے لیے؟ تب کیا کہو گے؟ اور جب اللہ پوچھے گا کہ میرے لیے کتنا غم اُٹھایا؟ تب پتا چلے گا۔ جب اﷲ کہے گا کہ آنکھیں میں نے دیں، دل میں نے بنایا اور ظالم تو اس دل کو کس کو دیتا تھا؟
اب دعا کرو کہ اے خدا! ہم ایک لمحہ بھی آپ کو ناراض نہ کریں، آپ پر جان فدا کردیں مگر آپ کے غضب اور قہر کو اپنے اوپر حلال نہ کریں۔ آہ! اے میرے پالنے والے! آپ کا ہم سب پر بڑا حق ہے، اے ہمارے پیدا کرنے والے! آپ کا ہم سب پر بہت بڑا حق